Shahryar

شہریار

ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔

One of the most prominent modern Urdu poets and lyricist. Wrote songs for the movie "Umrao Jaan". Recipient of the Bhartiya Gyan Peeth award.

شہریار کی نظم

    زندہ رہنے کا یہ احساس

    ریت مٹھی میں کبھی ٹھہری ہے پیاس سے اس کو علاقہ کیا ہے عمر کا کتنا بڑا حصہ گنوا بیٹھا میں جانتے بوجھتے کردار ڈرامے کا بنا اور اس رول کو سب کہتے ہیں ہوشیاری سے نبھایا میں نے ہنسنے کے جتنے مقام آئے ہنسا بس مجھے رونے کی ساعت پہ خجل ہونا پڑا جانے کیوں رونے کے ہر لمحے کو ٹال دیتا ہوں کسی ...

    مزید پڑھیے

    ایک اور موت

    کٹ گیا دن ڈھلی شام شب آ گئی پھر زمیں اپنے محور سے ہٹنے لگی چاندنی کروٹیں پھر بدلنے لگی آہٹوں کے سسکتے ہوئے شور سے پھر مکاں بھر گیا زہر سپنوں کا پی کر کوئی آج کی رات پھر مر گیا!

    مزید پڑھیے

    نیا کھیل

    اے اہل شہر آؤ چلو اس طرف چلو کہانیوں کی دھند سے آگے ذرا ادھر وہ سامنے کھلا ہوا میدان ہے جہاں اک ایسا کھیل پیش کیا جائے گا وہاں جو آج تک کسی نے بھی دیکھا نہیں کبھی یعنی تمہاری جاگتی آنکھوں کے سامنے آوازوں کے نجوم صداؤں کے ماہتاب سناٹوں کی صلیب پہ لٹکائے جائیں گے

    مزید پڑھیے

    میری زمیں

    زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کی صورت ریگ کے سیل میں ایک بگولہ ہانپ رہا ہے اپنے وجود سے خوف زدہ ہے گرد و غبار خواب سے دھند کا ننھا نقطہ پھیل رہا ہے اور افق اس کی زد میں ہے میری آنکھیں دشت خلا میں نور کی ایک لکیر کو بنتا دیکھ رہی ہیں لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں میری زمیں کس کی حد میں ہے

    مزید پڑھیے

    اعتراف

    وہ دور بلند پہاڑوں پر ملبوس فرشتوں کا پہنے خوابوں کے مہیب درختوں کی شاخوں پر جھولا ڈالے ہوئے پرچھائیاں چھوٹی بڑی لاکھوں مصروف ہیں زخم شماری میں میں ایک نحیف سے نقطے کی بانہوں میں اسیر تڑپتا ہوں ہموار زمیں پر چلنے کی خواہش کے عذاب میں جلتا ہوں

    مزید پڑھیے

    ایک کالی نظم

    میں کورے کاغذ پر لکھوں پھر ایک کالی نظم الکھ جگاتے سناٹوں سے پھر سے سجاؤں بزم گدر امرودوں کی خوشبو پاگل کر جائے میری ان خالی آنکھوں کو جل تھل کر جائے دور درندوں کی آوازیں خود سے لڑتی ہوں میرے اس کے بیچ میں لمبی راتیں پڑتی ہوں شکنوں سے عاری اک بستر مجھ کو تکتا ہو جسم مرا جب آدھا ...

    مزید پڑھیے

    واپسی

    یہاں کیا ہے برہنہ تیرگی ہے خلا ہے آہٹیں ہیں تشنگی ہے یہاں جس کے لیے آئے تھے وہ شے کسی قیمت پہ بھی ملتی نہیں ہے جو اپنے ساتھ ہم لائے تھے وہ بھی یہیں کھو جائے گا گر کی نہ جلدی چلو جلدی چلو اپنے مکاں کے کواڑوں کی جبیں پر ثبت ہوگی کوئی دستک ابھی بیتے دنوں کی

    مزید پڑھیے

    زوال کی حد

    بوتل کے اندر کا جن نکلے تو اس سے پوچھیں جینے کا کیا ڈھنگ کریں کن سپنوں سے جنگ کریں کھولو سوڈا لاؤ گلاس دو آنے کے سیخ کباب سگریٹ بھی لیتے آنا پارک میں کیا وہ آئی تھی آج بھی کیا شرمائی تھی کیسے کپڑے پہنے تھی کیا انداز تھا جوڑے کا تم نے اس سے پوچھا تھا رات جو تم نے سوچا تھا فیضؔ کی ...

    مزید پڑھیے

    کھیل کا نتیجہ

    کیوں ملال ہے اتنا ہار جیت میں تم کو فرق کیوں نظر آیا کھیل کا نتیجہ تو کھیلنے کی لذت ہے جو تمہارے حصے میں اور لوگوں کی نسبت کچھ زیادہ آئی ہے پھر ملال کیسا ہے

    مزید پڑھیے

    آرزو

    سوتے سوتے چونک اٹھی جب پلکوں کی جھنکار آبادی پر ویرانے کا ہونے لگا گمان وحشت نے پر کھول دیے اور دھندلے ہوئے نشان ہر لمحے کی آہٹ بن گئی سانپوں کی پھنکار ایسے وقت میں دل کو ہمیشہ سوجھا ایک اپائے کاش کوئی بے خواب دریچہ چپکے سے کھل جائے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3