فریب در فریب

دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر
ایک مبہم سا آسرا پا کر
ہم چلے آئے اس طرف اور اب
رات کے اس اتھاہ دریا میں
خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں!