موت شہریار 07 ستمبر 2020 شیئر کریں ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے