موت

ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے
ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے
ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا
ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے