دریائے خوں
پانی کی لے پہ گاتا اک کشتیٔ ہوا میں آیا تھا رات کوئی سارے بدن پہ اس کے لپٹے ہوئے تھے شعلے ہونٹوں سے اوس بوندیں پیہم گرا رہا تھا سرگوشیوں کے بادل چھائے ہوئے تھے ہر سو دریائے خوں رگوں میں بے تاب ہو رہا تھا میں ہو رہا تھا پاگل!
ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔
One of the most prominent modern Urdu poets and lyricist. Wrote songs for the movie "Umrao Jaan". Recipient of the Bhartiya Gyan Peeth award.
پانی کی لے پہ گاتا اک کشتیٔ ہوا میں آیا تھا رات کوئی سارے بدن پہ اس کے لپٹے ہوئے تھے شعلے ہونٹوں سے اوس بوندیں پیہم گرا رہا تھا سرگوشیوں کے بادل چھائے ہوئے تھے ہر سو دریائے خوں رگوں میں بے تاب ہو رہا تھا میں ہو رہا تھا پاگل!
زندگی یہ ترا احسان بہت ہے مجھ پر اعظمیؔ زیست ہے ہر موڑ پہ جو ساتھ مرے اس کی یادوں میں بسر ہوتے ہیں دن رات مرے ایک احسان نیا کر مجھ پر زندگی، موت سے تو میری سفارش کر دے مجھ کو ملنا ہے وحید اخترؔ سے
بہار اور خزاں موت اور زندگی کے منظم مناظر سے آگے بھی کچھ ایسے منظر ہیں آنکھوں کی جن تک رسائی نہیں ہے شجر جس کی ساری جڑیں آسمانوں میں پھیلی ہیں اور ٹہنیاں کھردری سخت لاوا اگلتی زمیں کے بدن میں مسلسل اترتی چلی جا رہی ہیں ہوا کے سمندر میں بے بادباں کشتیوں پر درندے لہو رنگ خوشبو کی ...
ہوا کے پاؤں اس زینے تلک آئے تھے لگتا ہے دیئے کی لو پہ یہ بوسہ اسی کا ہے مری گردن سے سینے تک خراشوں کی لکیروں کا یہ گلدستہ طلسمی قفل کھلنے کی اسی ساعت کی خاطر ہجر کے موسم گزارے ہیں ہوا نے مدتوں میں پاؤں پانی میں اتارے ہیں مری پسلی سے پیدا ہو وہی گندم کی بو لے کر زمیں اور آسماں کی ...
دھول میں لپٹے چہرے والا میرا سایہ کس منزل کس موڑ پہ بچھڑا اوس میں بھیگی یہ پگڈنڈی آگے جا کر مڑ جاتی ہے کتبوں کی خوشبو آتی ہے گھر واپس جانے کی خواہش دل میں پہلے کب آتی ہے اس لمحے کی رنگ برنگی سب تصویریں پہلی بارش میں دھل جائیں میری آنکھوں میں لمبی راتیں گھل جائیں
یہ بات روز ازل سے طے ہے زمین جسموں کا بوجھ اٹھائے گی آسماں پر رہیں گی روحیں مگر کوئی ہے جو یہ بتائے ہماری پرچھائیوں کی قبریں کہاں بنیں گی؟
ایک آہٹ ابھی دروازے پہ لہرائی تھی ایک سرگوشی ابھی کانوں سے ٹکرائی تھی ایک خوشبو نے ابھی جسم کو سہلایا تھا ایک سایہ ابھی کمرے میں مرے آیا تھا اور پھر نیند کی دیوار کے گرنے کی صدا اور پھر چاروں طرف تیز ہوا!!
نکیلے ناخنوں سے اپنی قبریں کھودتے جاؤ تھکن سے چور چہروں پر ابھی تک شرم کے آثار باقی ہیں اندھیروں کے کسی پاتال میں اترے چلے جاؤ تمہارے رتجگوں نے نیند کو پامال کر ڈالا سخی آنکھوں کے اشکوں نے تمہیں کنگال کر ڈالا تمہاری بے دلی کا کرب اب دیکھا نہیں جاتا چلو تم کو کسی اک گھومتی کرسی پہ ...
مائل بہ کرم ہیں راتیں آنکھوں سے کہو اب مانگیں خوابوں کے سوا جو چاہیں
دواؤں کی المایوں سے سجی اک دکاں میں مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا اک انساں کھڑا ہے جو اک نیلی کبڑی سی شیشی کے سینے پہ لکھے ہوئے ایک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے مگر اس پہ تو ''زہر'' لکھا ہوا ہے اس انسان کو کیا مرض ہے یہ کیسی دوا ہے؟