Shahram Sarmadi

شہرام سرمدی

شہرام سرمدی کی غزل

    جو اس برس نہیں اگلے برس میں دے دے تو

    جو اس برس نہیں اگلے برس میں دے دے تو یہ کائنات مری دسترس میں دے دے تو سکون چاہتا ہوں میں سکون چاہتا ہوں کھلی فضا میں نہیں تو قفس میں دے دے تو یہ کیا کہ حرف دعا پہ بھی برف جمنے لگی کوئی سلگتا شرارہ نفس میں دے دے تو میں دونوں کام میں مشاق ہوں مگر مجھ کو ذرا تمیز تو عشق و ہوس میں دے ...

    مزید پڑھیے

    مرے سخن پہ اک احسان اب کے سال تو کر

    مرے سخن پہ اک احسان اب کے سال تو کر تو مجھ کو درد کی دولت سے مالا مال تو کر دل عزیز کو تیرے سپرد کر دیا ہے تو دل لگا کے ذرا اس کی دیکھ بھال تو کر کئی دنوں سے میں اک بات کہنا چاہتا ہوں تو لب ہلا تو سہی ہاں کوئی سوال تو کر میں اجنبی کی طرح تیرے پاس سے گزرا یہ کیا تعلق خاطر ہے کچھ خیال ...

    مزید پڑھیے

    رہ وفا میں رہے یہ نشان خاطر بس

    رہ وفا میں رہے یہ نشان خاطر بس بغیر نام ہو مذکور ہر مسافر بس ہزار وادیٔ تاریک سے گزرتا ہوا یہ عشق چاہتا ہے ہو ترا معاصر بس طویل مرحلۂ جستجو بھی تھا درپیش سو اتفاق نہیں تھا ہوا وہ ظاہر بس پھر اس کے بعد سبھی ہو گیا ادھر کا ادھر وہ ایک لمحۂ موجود میں تھا حاضر بس یہ اک جزیرۂ بے راہ ...

    مزید پڑھیے

    متاع پاس وفا کھو نہیں سکوں گا میں

    متاع پاس وفا کھو نہیں سکوں گا میں کسی کا تیرے سوا ہو نہیں سکوں گا میں سدا رہے گا تر و تازہ شاخ دل پر تو فضول رنج کہ کچھ بو نہیں سکوں گا میں تو آنکھیں موند لے تو نیند آئے مجھ کو بھی تو جانتا ہے کہ یوں سو نہیں سکوں گا میں مجھے وراثت غم سے بھی عاق کر ڈالا یہ کیسا لطف کہ اب رو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خلا سا ٹھہرا ہوا ہے یہ چار سو کیسا

    خلا سا ٹھہرا ہوا ہے یہ چار سو کیسا اجاڑ ہو گیا اک شہر رنگ و بو کیسا تمام حلقۂ خواب و خیال حیراں ہے سواد چشم میں آیا یہ ماہرو کیسا کبھی جو فرصت یک لمحہ بھی ملے تو دیکھ کہ دشت یاد میں بکھرا پڑا ہے تو کیسا اگرچہ شورہ ہی شورہ سب علاقۂ دل تجھے رکھا ہے مگر سبز و پر نمو کیسا سرائے دل ...

    مزید پڑھیے

    بہ راہ راست نہیں پھر بھی رابطہ سا ہے

    بہ راہ راست نہیں پھر بھی رابطہ سا ہے وہ جیسے یاد مضافات میں چھپا سا ہے کبھی تلاش کیا تو وہیں ملا ہے وہ نفس کی آمد و شد میں جہاں خلا سا ہے یہ تارے کس لیے آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں ہمیں تو جاگتے رہنے کا عارضہ سا ہے یہ کائنات اگر ویسی ہو تو کیا ہوگا ہمارے ذہن میں خاکہ جو اک بنا سا ...

    مزید پڑھیے

    عنایت ہے تری بس ایک احسان اور اتنا کر

    عنایت ہے تری بس ایک احسان اور اتنا کر مرے اس درد کی میعاد میں بھی کچھ اضافہ کر گماں سے بھی زیادہ چاہئے سرسبز کشت جاں فقط پچھلے پہر کیا ہر پہر اے آنکھ برسا کر تو پھر اکرام کیا شے ہے جو تنہائی میں تنہا ہوں کوئی محفل عطا کر قاعدے کی اس میں تنہا کر نفس کی آمد و شد رک نہ جائے پیشتر اس ...

    مزید پڑھیے

    فضا ہوتی غبار آلودہ سورج ڈوبتا ہوتا

    فضا ہوتی غبار آلودہ سورج ڈوبتا ہوتا یہ نظارہ بھی دل کش تھا اگر میں تھک گیا ہوتا ندامت ساعتیں آئیں تو یہ احساس بھی جاگا کہ اپنی ذات کے اندر بھی تھوڑا سا خلا ہوتا گزشتہ روز و شب سے آج بھی اک ربط سا کچھ ہے وگرنہ شہر بھر میں مارا مارا پھر رہا ہوتا عجب سی نرم آنکھیں گندمی آواز ...

    مزید پڑھیے

    تو کیا تڑپ نہ تھی اب کے مرے پکارے میں

    تو کیا تڑپ نہ تھی اب کے مرے پکارے میں وگرنہ وہ تو چلا آتا تھا اشارے میں وہ بات اس کو بتانا بہت ضروری تھی وہ بات کس لیے کہتا میں استعارے میں مدام ہجر کدے میں وہ یاد روشن ہے کہاں ہے اے دل ناکام تو خسارے میں مرے علاوہ سبھی لوگ اب یہ مانتے ہیں غلط نہیں تھی مری رائے اس کے بارے ...

    مزید پڑھیے

    میں نہیں روتا ہوں اب یہ آنکھ روتی ہے مجھے

    میں نہیں روتا ہوں اب یہ آنکھ روتی ہے مجھے روتی ہے اور سر سے پاؤں تک بھگوتی ہے مجھے بد دعا ہے جانے کس کی یاد کی جو ہر گھڑی ہر گزشتہ لمحے سے وحشت سی ہوتی ہے مجھے ممکنہ حد تک میں اپنی دسترس میں ہوں مگر پچھلے کچھ دن سے کوئی شے مجھ میں کھوتی ہے مجھے مطمئن تھا دن کے بکھراؤ سے میں لیکن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3