متاع پاس وفا کھو نہیں سکوں گا میں
متاع پاس وفا کھو نہیں سکوں گا میں
کسی کا تیرے سوا ہو نہیں سکوں گا میں
سدا رہے گا تر و تازہ شاخ دل پر تو
فضول رنج کہ کچھ بو نہیں سکوں گا میں
تو آنکھیں موند لے تو نیند آئے مجھ کو بھی
تو جانتا ہے کہ یوں سو نہیں سکوں گا میں
مجھے وراثت غم سے بھی عاق کر ڈالا
یہ کیسا لطف کہ اب رو نہیں سکوں گا میں
بہت حسیں ہے جہاں، زندگی بھی خوب مگر
مزید بار نفس ڈھو نہیں سکوں گا میں