Shahram Sarmadi

شہرام سرمدی

شہرام سرمدی کی غزل

    اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا

    اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا در وا کیا تو کس لیے سایہ بکھر گیا تا دیر اپنے ساتھ رہا میں زمانے بعد بے نام سا سکوت تھا جب رات گھر گیا رکھتا تھا حکم موت کا جو راہ وصل میں وہ لمحۂ فراق مرے ڈر سے مر گیا سب رونقیں بضد تھیں جہاں گھر بنانے کو وہ قریۂ وجود خلاؤں سے بھر گیا میں باندھ ہی ...

    مزید پڑھیے

    نصیب چشم میں لکھا ہے گر پانی نہیں ہونا (ردیف .. ')

    نصیب چشم میں لکھا ہے گر پانی نہیں ہونا تو کیا یہ طے ہے اب رنج پشیمانی نہیں ہونا سکوں سے جا لگے گی دل کی کشتی اپنے ساحل سے کہ اس برسات میں دریا کو طوفانی نہیں ہونا سبھی کچھ طے شدہ معمولی جیسا ہونے والا ہے کسی بھی واقعے کو وجہ حیرانی نہیں ہونا جنوں میں ممکنہ حد تک رہے گا ہوش بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے عشق کی بابت کچھ احتمال میں ہیں

    ہم اپنے عشق کی بابت کچھ احتمال میں ہیں کہ تیری خوبیاں اک اور خوش خصال میں ہیں تمیز ہجر و وصال اس مقام پر بھی ہے حساب راہ محبت میں گرچہ حال میں ہیں کوئی بھی پاس نہیں تو ترا خیال نہ غم بقول پیر جہاں دیدہ ہم وصال میں ہیں بہت ضروری نہیں ہے کہ تو سبب ٹھہرے یہ بات اپنی جگہ ہم کسی ملال ...

    مزید پڑھیے

    حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں

    حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں دن ڈھلے ہی بین کرتی ہیں عجب راتیں وہاں اک غروب بے نشاں کی سمت رستے پر ہوں میں خوف یہ درپیش ہوں گی کیسی دنیائیں وہاں بارہا دیکھی ہے ان کوچوں نے شب مستی مری آج بھی اک گھر کے بام و در شناسا ہیں وہاں کیا تجھے مسماریٔ دل کی خبر کوئی نہ تھی کس ...

    مزید پڑھیے

    ندی تھی کشتیاں تھیں چاندنی تھی جھرنا تھا

    ندی تھی کشتیاں تھیں چاندنی تھی جھرنا تھا گزر گیا جو زمانہ کہاں گزرنا تھا مجھی کو رونا پڑا رت جگے کا جشن جو تھا شب فراق وہ تارہ نہیں اترنا تھا مرے جلال کو کرنا تھا خم سر تسلیم ترے جمال کا شیرازہ بھی بکھرنا تھا ترے جنون نے اک نام دے دیا ورنہ مجھے تو یوں بھی یہ صحرا عبور کرنا ...

    مزید پڑھیے

    غبار درد میں راہ نجات ایسا ہی

    غبار درد میں راہ نجات ایسا ہی رہا ہے کوئی مرے ساتھ ساتھ ایسا ہی تو بھول پانے میں دشواریاں بہت ہوں گی کیا ہے پیار حد ممکنات ایسا ہی برس گزر گئے اس سے جدا ہوئے لیکن عجیب بین ہے موج فرات ایسا ہی اسے بھی اوس میں ڈوبا ہوا لگا تھا بدن مجھے بھی کچھ ہوا محسوس رات ایسا ہی میں جس سے خوف ...

    مزید پڑھیے

    سمندر تشنگی وحشت رسائی چشمۂ لب تک

    سمندر تشنگی وحشت رسائی چشمۂ لب تک یہ سارا کھیل ان آنکھوں سے دیکھا تیرے کرتب تک تماشا گاہ دنیا میں تماشائی رہے ہم بھی سحر کی آرزو ہم نے بھی کی تھی جلوۂ شب تک نہ جانے وقت کا کیا فیصلہ ہے دیر کتنی ہے گھڑی کی سوئیاں بھی ہو چکی ہیں مضمحل اب تک کبھی فرصت ملی تو آسماں سے ہم یہ پوچھیں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے تسلیم بے چون و چرا تو حق بہ جانب تھا

    مجھے تسلیم بے چون و چرا تو حق بہ جانب تھا مرے انفاس پر لیکن عجب پندار غالب تھا وگرنہ جو ہوا اس سے سوائے رنج کیا حاصل مگر ہاں مصلحت کی رو سے دیکھیں تو مناسب تھا میں تیرے بعد جس سے بھی ملا تیکھا رکھا لہجہ کہ اس بے لوث چاہت کے عوض اتنا تو واجب تھا میں کچھ پوچھوں بھی تو اکثر جواباً ...

    مزید پڑھیے

    بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا

    بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا نظر آئے گا وہ منظر جو سوچا بھی نہیں ہوگا ہر اک لمحہ کسی شے کی کمی محسوس بھی ہوگی کہیں بھی دور تک کوئی خلا سا بھی نہیں ہوگا وہ آنکھیں بھی نہیں ہوں گی کہیں جو ان کہی باتیں ہوا میں سبز آنچل کا وہ لہرا بھی نہیں ہوگا سمٹ جائے گی دنیا ساعت ...

    مزید پڑھیے

    یاد کی بستی کا یوں تو ہر مکاں خالی ہوا

    یاد کی بستی کا یوں تو ہر مکاں خالی ہوا بس گیا تھا جو خلا سا وہ کہاں خالی ہوا رات بھر اک آگ سی جلتی رہی تھی آنکھ میں اور پھر دن بھر مسلسل اک دھواں خالی ہوا خودبخود اک دشت نے تشکیل پائی اور پھر لمحہ بھر میں ایک شہر بیکراں خالی ہوا آج جب اس لطف سایہ کی ضرورت تھی ہمیں کم نصیبی یہ کہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3