Shahram Sarmadi

شہرام سرمدی

شہرام سرمدی کی نظم

    میں واپس آؤں گا

    غار حرائے شاعری میں بیٹھنے جاتا ہوں میں اور میں حصار ذات بھی کر کے رکھوں گا اس حصار ذات کے باہر کوئی بھی داشتہ شہرت کی شہر نو لگا بیٹھے نہ اپنا دیکھتے رہنا نہ کرنا انتظار اس کا کہ میں تازہ صحیفہ لانے والا ہوں کہ ہر تازہ صحیفہ ایک دن منسوخ ہونا ہے اسے وہ معنی و مفہوم کھونا ہے جو اصل ...

    مزید پڑھیے

    اپنا اپنا دکھ

    بچپن سے اماں سے سنا کرتے تھے 'پانچوں انگلیاں ایک برابر نہیں ہوتیں' لیکن پچھلے کچھ برسوں سے اماں منجھلی انگلی کو کھینچ رہی ہیں کہتی ہیں: 'اس کو کیسے چھوڑوں پیچھے رہ جائے گی' منجھلی انگلی بھی تو آخر جانتی ہوگی 'پانچوں انگلیاں ایک برابر نہیں ہوتیں' پیچھے رہ جانے کا دکھ تو منجھلی ...

    مزید پڑھیے

    کار جہاں دراز ہے

    کوئی ایسا شغل تو ہو زیست کرنے کا جسے واجب سا کوئی نام دے دیں خواہ اس میں قصۂ رنگ پریدہ کی کوئی تمثیل ڈھونڈیں یا کسی اک یاد کو وہ اسم دے دیں جو گزرتے وقت کا کوئی بھلا عنوان طے پائے کوئی مصرع کہیں تازہ جو اپنے آپ میں کامل نظر آئے اگر ایسا نہیں ممکن تو کوئی قہقہہ لمبا سا پورا قہقہہ ...

    مزید پڑھیے

    تم اپنی سبز آنکھیں بند کر لو

    بدلتی رت مرے ماتھے پہ جو لکھے گی وہ سب جانتا ہوں میں کہ میں نے اپنے والد کی جوانی کی وہ تصویریں بہت ہی غور سے دیکھی ہیں جن میں وہ کسی کی یاد کی پرچھائیوں کو اپنی آنکھوں میں چھپائے آسماں کو تک رہے ہیں اب وہ آنکھیں میری آنکھیں ہیں تم اپنی سبز آنکھیں بند کر لو

    مزید پڑھیے

    اہل دل کو بلا رہا ہوں

    مجھے ودیعت ہوئی ہے جب تک تمہاری آنکھیں مقام بینائی تک نہ پہنچیں سفید کاغذ کی روشنی کو سیاہ الفاظ سے مسلسل چھپائے رکھوں کہا گیا ہے یہ قول بھی دوں جب آنکھیں خیرہ نہ ہوں گی (یعنی مقام بینائی پر پہنچ جائیں گی) تو کاغذ سیاہ کرنا میں چھوڑ دوں گا نفی موعود ہیں یہ الفاظ اصل اثبات چشم ...

    مزید پڑھیے

    کار بیہودہ

    اپنے ہونے اور نہ ہونے میں خوشی کی غم کی اطمینان کی تحقیق بے مصرف ہے اور اک سعئ لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں یہ زندگی اک جنگ تحمیلی ہے اور میں بے نتیجہ جنگ کا سر باز ہوں کوئی جو بیہودہ سوالوں سے ازل سے بر سر پیکار ابد آثار نا پیدا مائل تار ابریشم وجود اک کرم کی مانند غائب ہو رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ایسا ہو کہ نا موعود ہو

    وہ غنی ساعت کہ ہم شاکی نہ ہوں یا یوں کہیں خاکی نہ ہوں صد حیف افلاکی نہ ہوں کاش اس غنی ساعت میں اک کار غنیمت ایسا ہو مٹی بدن کی روح کی تہذیب سے ہموار ہو بے دار ہو یہ نقش پائے رفتگاں روشن مثال کہکشاں سب روح کی تہذیب سے بے دار مٹی کی نمو ہے عکس ہو ہے روح کی تہذیب یا اک سلسلہ جس میں عدم ...

    مزید پڑھیے

    جب تم مجھ سے ملنے آؤ

    تمہاری اپنی دنیا ہے تمہارے روز و شب شام و سحر اپنے تم اک آزاد پنچھی ہو مری جاگیر کا حصہ نہیں ہو تم مگر کل شام جب تم مجھ سے ملنے آؤ (جیسا تم نے لکھا ہے) تو آنکھوں میں ذرا کاجل لگا آنا

    مزید پڑھیے

    پتنگ اڑانے سے پہلے

    پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہیت کیا ہے بہت نحیف سی دو بانس کی کھپنچیں ہیں اور ان سے لپٹا مربعے میں ناتواں کاغذ یہ جس کے دم پہ ہوا میں کلیلیں بھرتی ہے ذرا سی ضرب سے وہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے پتنگ کٹ گئی تو اس کا اتنا غم کیوں ہے پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2