رہ وفا میں رہے یہ نشان خاطر بس
رہ وفا میں رہے یہ نشان خاطر بس
بغیر نام ہو مذکور ہر مسافر بس
ہزار وادیٔ تاریک سے گزرتا ہوا
یہ عشق چاہتا ہے ہو ترا معاصر بس
طویل مرحلۂ جستجو بھی تھا درپیش
سو اتفاق نہیں تھا ہوا وہ ظاہر بس
پھر اس کے بعد سبھی ہو گیا ادھر کا ادھر
وہ ایک لمحۂ موجود میں تھا حاضر بس
یہ اک جزیرۂ بے راہ بھی نہیں رہنا
تو کیا قریب ہے وہ مجمع الجزائر بس