Shahid Mahuli

شاہد ماہلی

شاہد ماہلی کی غزل

    آنکھوں دیکھی بات کہانی لگتی ہے

    آنکھوں دیکھی بات کہانی لگتی ہے نئی نئی سی ریت پرانی لگتی ہے دشت نوردی لگتی ہے سوغات تری شب بے داری کوئی نشانی لگتی ہے تاشوں کا تھا کھیل سہانا بچپن کا چھو منتر سی بھری جوانی لگتی ہے شام ہوئی تو کالے سائے امڈ پڑے صبح کو تو ہر چیز سہانی لگتی ہے مریم جیسی دھلی دھلی اک مورت سی میرا ...

    مزید پڑھیے

    بجھے بجھے سے چراغوں سے سلسلہ پایا

    بجھے بجھے سے چراغوں سے سلسلہ پایا ہجوم یاس میں بھٹکے تو راستہ پایا کسی خیال میں ابھرا امید کا چہرہ کسی امید میں پرتو خیال کا پایا نہ جانے کتنے گھروندوں کو ٹوٹتے دیکھا کسی کھنڈر میں تمنا کا نقش پا پایا تمام رات نیا بت تراشتے گزری ہوئی جو صبح تو اس بت کو ٹوٹتا پایا قدم قدم پہ ...

    مزید پڑھیے

    حاشیے پر کچھ حقیقت کچھ فسانہ خواب کا

    حاشیے پر کچھ حقیقت کچھ فسانہ خواب کا اک ادھورا سا ہے خاکہ زندگی کے باب کا رنگ سب دھندلا گئے ہیں سب لکیریں مٹ گئیں عکس ہے بے پیرہن اس پیکر نایاب کا ذرہ ذرہ دشت کا مانگے ہے اب بھی خوں بہا منہ چھپائے رو رہا ہے قطرہ قطرہ آب کا سانپ بن کر ڈس رہی ہیں سب تمنائیں یہاں کارواں آ کر کہاں ...

    مزید پڑھیے

    شہر خاموش ہے سب نیزہ و خنجر چپ ہیں

    شہر خاموش ہے سب نیزہ و خنجر چپ ہیں کیسی افتاد پڑی ہے کہ ستم گر چپ ہیں خوں کا سیلاب تھا جو سر سے ابھی گزرا ہے بام و در اب بھی سسکتے ہیں مگر گھر چپ ہیں چار سو دشت میں پھیلا ہے اداسی کا دھواں پھول سہمے ہیں ہوا ٹھہری ہے منظر چپ ہیں مطمئن کوئی نہیں نامۂ اعمال سے آج مسکراتا ہے خدا سارے ...

    مزید پڑھیے

    کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا

    کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا آنکھوں میں بس گیا ہے وہ منظر کھلا ہوا بستر تھا ایک جسم تھے دو خواہشیں ہزار دونوں کے درمیان تھا خنجر کھلا ہوا الجھا ہی جا رہا ہوں میں گلیوں کے جال میں کب سے ہے انتظار میں اک گھر کھلا ہوا اک حرف مدعا تھا سو وہ بھی دبی زبان الزام دے رہا ہے ستم گر ...

    مزید پڑھیے

    بوئے پیراہن صدا آئے

    بوئے پیراہن صدا آئے کھڑکیاں کھول دو ہوا آئے منزلیں اپنے نام ہوں منسوب اپنی جانب بھی راستہ آئے جلتے بجھتے چراغ سا دل میں آرزوؤں کا سلسلہ آئے خامشی لفظ لفظ پھیلی تھی بے زبانی میں کچھ سنا آئے ڈوب کر ان اداس آنکھوں میں اک جہان طرب لٹا آئے دل میں رہ رہ کے اک خلش اٹھے بے سبب اک ...

    مزید پڑھیے

    حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا

    حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا گزر گیا ہے مجھے روند کے زمانہ مرا سمندروں میں کبھی تشنگی کے صحرا میں کہاں کہاں نہ پھرا لے کے آب و دانہ مرا تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا جو کچھ دیا بھی تو محرومیوں کا زہر دیا وہ سانپ بن کے چھپائے رہا خزانہ مرا وہ ...

    مزید پڑھیے

    جنس گراں تھی خوبیٔ قسمت نہیں ملی

    جنس گراں تھی خوبیٔ قسمت نہیں ملی بکنے کو ہم بھی آئے تھے قیمت نہیں ملی ہنگام روز و شب کے مشاغل تھے اور بھی کچھ کاروبار زیست سے فرصت نہیں ملی کچھ دور ہم بھی ساتھ چلے تھے کہ یوں ہوا کچھ مسئلوں پہ ان سے طبیعت نہیں ملی اک آنچ تھی کہ جس سے سلگتا رہا وجود شعلہ سا جاگ اٹھے وہ شدت نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2