نقوش رہ گزر شوق سب مٹا دینا
نقوش رہ گزر شوق سب مٹا دینا
رہی ہے جاں سو اسے بھی کہیں گنوا دینا
رہ حیات میں ہر موڑ پر ہے اک الجھن
بچھڑ نہ جاؤں کہیں دوستو صدا دینا
غبار وقت نے دھندلا دیئے ہیں اس کے نقوش
ذرا چراغ محبت کی لو بڑھا دینا
سنا ہے شہر میں پھر آ گیا ہے وہ قاتل
ملے تو دوستو میرا پتہ بتا دینا
طلب تو کرنا مری عمر رائیگاں کا حساب
حساب طول شب ہجر کا چکا دینا