رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی

رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی
ایسے میں کیوں چھیڑ نہ دیں ہم ذکر غم جانانہ بھی


بستی میں ہر اک رہتا ہے اپنا بھی بیگانہ بھی
حال کسی نے پوچھا دل کا درد کسی نے جانا بھی


ہائے تجاہل آج ہمیں سے پوچھ رہے ہیں اہل خرد
سنتے ہیں اس شہر میں رہتا ہے کوئی دیوانہ بھی


آخر صف تک آتے آتے ہر پیمانہ چھلکا ہے
لیکن ہم تک آتے آتے ٹوٹ گیا پیمانہ بھی


جس سے دل کا زخم ہرا ہو ایسا کوئی ذکر نہ چھیڑ
جس میں اس کا نام نہ آئے ایسا اک افسانہ بھی


شہر کی رنگا رنگ نگارو دل والوں کی قدر کرو
محفل میں دونوں جلتے ہیں شمع بھی پروانہ بھی