Shahid Bhopali

شاہد بھوپالی

شاہد بھوپالی کی غزل

    ساز دل ساز جنوں ساز وفا کچھ بھی نہیں

    ساز دل ساز جنوں ساز وفا کچھ بھی نہیں وہ نہ ہوں پاس تو جینے کا مزہ کچھ بھی نہیں جینے والوں کے لیے اس کی بڑی قیمت ہے مرنے والوں کے لیے آب بقا کچھ بھی نہیں مصلحت کہتی ہے لوگوں سے کہ میرے گھر میں اس طرح آگ لگی ہے کہ جلا کچھ بھی نہیں ان کے ہاتھوں میں ہے تقدیر جہاں دیوانے تیرے ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے

    بربادیوں سے شاد ہوں ان کی خوشی بھی ہے

    بربادیوں سے شاد ہوں ان کی خوشی بھی ہے وجہ بہار غم مری دیوانگی بھی ہے پیہم تڑپ سے درد میں کچھ تازگی بھی ہے تکمیل اضطراب مری زندگی بھی ہے ذکر شراب و جام کیا اور بہک گیا واعظ مجھے بتا کہ کبھی تو نے پی بھی ہے تنہا مرا جنوں ہی نہیں باعث الم بندہ نواز کچھ تو نظر آپ کی بھی ہے روح امید ...

    مزید پڑھیے

    جنون شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے

    جنون شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے نگار حسن کی زلفوں کے سارے پیچ و خم نکلے یہ بے نوری مرے گھر کے اجالوں کی معاذ اللہ اگر دیکھیں اندھیرے تو اندھیروں کا بھی دم نکلے ابھارے جائیے جب تک نہ ابھرے نقش کاغذ پر تراشے جائیے جب تک نہ پتھر سے صنم نکلے نہیں دیکھا تھا جب تک خود کو سمجھے ...

    مزید پڑھیے

    دل میں جو گھٹن رہتی تھی کم ہو تو گئی ہے

    دل میں جو گھٹن رہتی تھی کم ہو تو گئی ہے ہر آرزو ممنون کرم ہو تو گئی ہے پہچان نہ پاؤ گے کسی شخص کی آواز ہر ایک صدا ضرب ستم ہو تو گئی ہے اب کیوں یہ ہوا دیتے ہیں افکار پریشاں چنگاری ہر اک شعلۂ غم ہو تو گئی ہے کس کس کی طرف اپنی نگاہوں کو جمائیں ہر شکل ہی تصویر صنم ہو تو گئی ہے جس آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    سورج کی طرح ڈوب چکے اور ابھر چکے

    سورج کی طرح ڈوب چکے اور ابھر چکے اس زندگی میں ہم تو کئی بار مر چکے خوشیوں کا اب ہجوم سہی میرے آس پاس سینے میں غربتوں کے تو نشتر اتر چکے اب اور لوگ آئیں سنواریں صلیب و دار ہم تو صلیب و دار کی حد سے گزر چکے دلداریاں فضول ہیں اے چارہ ساز غم زخموں کا اب علاج نہ کر زخم بھر چکے کیا ذکر ...

    مزید پڑھیے

    منتظر بیٹھا ہوں یوں جیسے کوئی آنے کو ہے

    منتظر بیٹھا ہوں یوں جیسے کوئی آنے کو ہے جلوۂ رنگیں کا عالم روح پر چھانے کو ہے ایسا لگتا ہے کہ پھر اک انقلاب آنے کو ہے وہ نگاہ مست کیف حسن برسانے کو ہے کچھ نہ کچھ تو اس زمانے کو میں سمجھا ہوں ضرور کچھ نہ کچھ تو یہ زمانہ مجھ کو سمجھانے کو ہے چھا رہی ہے ذہن پر خوشبو جمال یار کی پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2