دور خزاں میں مظہر جوش بہار تھے
دور خزاں میں مظہر جوش بہار تھے وہ ہاتھ جن میں جیب و گریباں کے تار تھے دل ہی کو اعتبار نہ آیا میں کیا کروں وعدے تمہارے لائق صد اعتبار تھے ان کے بغیر گزرے جو ان کے خیال میں لمحے وہی تو اشک شب انتظار تھے جذبے جواں ہوئے جو صلیبوں کے درمیاں احساس زندگی کا حسیں شاہکار تھے اک تیری ...