دل میں جو گھٹن رہتی تھی کم ہو تو گئی ہے

دل میں جو گھٹن رہتی تھی کم ہو تو گئی ہے
ہر آرزو ممنون کرم ہو تو گئی ہے


پہچان نہ پاؤ گے کسی شخص کی آواز
ہر ایک صدا ضرب ستم ہو تو گئی ہے


اب کیوں یہ ہوا دیتے ہیں افکار پریشاں
چنگاری ہر اک شعلۂ غم ہو تو گئی ہے


کس کس کی طرف اپنی نگاہوں کو جمائیں
ہر شکل ہی تصویر صنم ہو تو گئی ہے


جس آنکھ میں مضبوط ارادوں کی چمک تھی
اس دور میں وہ آنکھ بھی نم ہو تو گئی ہے


شکوہ نہیں تجھ سے کوئی اے گردش دوراں
مجھ پر بھی تری چشم کرم ہو تو گئی ہے


جس خواب کی تعبیر سکوں ہو نہ خوشی ہو
اس خواب کی تعبیر ستم ہو تو گئی ہے


جو بات زباں پر نہیں آئی کبھی شاہدؔ
چہرے پہ وہی بات رقم ہو تو گئی ہے