سورج کی طرح ڈوب چکے اور ابھر چکے
سورج کی طرح ڈوب چکے اور ابھر چکے
اس زندگی میں ہم تو کئی بار مر چکے
خوشیوں کا اب ہجوم سہی میرے آس پاس
سینے میں غربتوں کے تو نشتر اتر چکے
اب اور لوگ آئیں سنواریں صلیب و دار
ہم تو صلیب و دار کی حد سے گزر چکے
دلداریاں فضول ہیں اے چارہ ساز غم
زخموں کا اب علاج نہ کر زخم بھر چکے
کیا ذکر دوستوں کا رفیقوں کا ان دنوں
ہم اپنے سائے سے بھی کئی بار ڈر چکے
اب اپنی جستجو سے ملے گا بھی کیا کہ ہم
رک رک کے سانس بن کے فضا میں بکھر چکے
میری کہانیوں میں نہیں جن کا ذکر تک
طوفان ایسے سیکڑوں سر سے گزر چکے
شاہدؔ غم زمانہ کا اب تک شکار ہے
گیسو تمہارے کب کے بکھر کر سنور چکے