منتظر بیٹھا ہوں یوں جیسے کوئی آنے کو ہے

منتظر بیٹھا ہوں یوں جیسے کوئی آنے کو ہے
جلوۂ رنگیں کا عالم روح پر چھانے کو ہے


ایسا لگتا ہے کہ پھر اک انقلاب آنے کو ہے
وہ نگاہ مست کیف حسن برسانے کو ہے


کچھ نہ کچھ تو اس زمانے کو میں سمجھا ہوں ضرور
کچھ نہ کچھ تو یہ زمانہ مجھ کو سمجھانے کو ہے


چھا رہی ہے ذہن پر خوشبو جمال یار کی
پھر جمال یار شاید پھول برسانے کو ہے


آج گزری ہے صبا چپکے سے یہ کہتی ہوئی
مژدہ اے اہل قفس فصل بہار آنے کو ہے


سونا سونا لگ رہا ہے صبح کا منظر مجھے
کیا خیال یار مجھ کو چھوڑ کر جانے کو ہے


ضبط کی طاقت ہے باقی اب نہ دل پر اختیار
دیدۂ مہجور اب تو اشک برسانے کو ہے


تیرگی میں پھر نظر آتی ہے شاہدؔ روشنی
پھر کوئی منظر نگاہ شوق دکھلانے کو ہے