بربادیوں سے شاد ہوں ان کی خوشی بھی ہے

بربادیوں سے شاد ہوں ان کی خوشی بھی ہے
وجہ بہار غم مری دیوانگی بھی ہے


پیہم تڑپ سے درد میں کچھ تازگی بھی ہے
تکمیل اضطراب مری زندگی بھی ہے


ذکر شراب و جام کیا اور بہک گیا
واعظ مجھے بتا کہ کبھی تو نے پی بھی ہے


تنہا مرا جنوں ہی نہیں باعث الم
بندہ نواز کچھ تو نظر آپ کی بھی ہے


روح امید کیف تجلی خیال غم
دل کے سیاہ خانے میں کچھ روشنی بھی ہے
جس آستاں پہ رفعت کون و مکاں نثار
اس آستاں پہ نقش مری بندگی بھی ہے
میں کیا بتاؤں کیف محبت کی لذتیں
کچھ ہوش ہے اگر تو مجھے بے خودی بھی ہے
شاہدؔ نگاہ ناز کا تنہا قصور کیا
تڑپانے والی تجھ کو تری شاعری بھی ہے