ہم کو جہاں کی عشرت و راحت سے کیا غرض

ہم کو جہاں کی عشرت و راحت سے کیا غرض
دنیائے بے ثبات کی دولت سے کیا غرض


گمنام رہنا اپنے مقدر میں ہے لکھا
ہم کو کسی کے گوہر شہرت سے کیا غرض


ماضی کا تلخ جام ہے اپنے نصیب میں
ہم کو شراب حال کی لذت سے کیا غرض


الزام سے بچے نہ پیمبر بھی ہے خبر
یاران جہل کی ہمیں تہمت سے کیا غرض


دیکھے نہ کوئی روشنیٔ دل تو کیا ہوا
اندھے جہاں کی اندھی بصیرت سے کیا غرض


ہم ہیں الم نصیب مسرت سے بے نیاز
ہم کو تمہاری بزم مسرت سے کیا غرض


ہم نے ہمیشہ دہر میں بانٹا ہے پیار ہی
شاغلؔ ادیبؔ ہم کو عداوت سے کیا غرض