راہزن راہوں میں اپنے جال پھیلاتے رہے

راہزن راہوں میں اپنے جال پھیلاتے رہے
ہم مگر اپنی ہی دھن میں جھومتے گاتے رہے


دور جتنی دور تک تھیں رات کی تاریکیاں
دور اتنی دور ہم راہوں کو چمکاتے رہے


منحصر ہے اپنے اپنے عزم پر منزل رسی
قافلے یوں تو بہت آتے رہے جاتے رہے


ہر تسلی دشمن آرام جاں بنتی گئی
آپ کے خط اور دل کے زخم گہراتے رہے


جانے کس کے نقش پا تھے آنے والے قافلے
ہر قدم پر خون دل کے پھول برساتے رہے


بڑھ گئے کچھ اور شاغلؔ جانب زنداں جو ہم
تقویت کچھ اور دل کے حوصلے پاتے رہے