اٹھا ہی لیتے ہیں دیوار و در سلیقے سے
اٹھا ہی لیتے ہیں دیوار و در سلیقے سے
بنانے والے بناتے ہیں گھر سلیقے سے
نظر میں رکھتے ہیں وہ زندگی شہادت کی
کٹانے والے کٹاتے ہیں سر سلیقے سے
سلیقہ مند ہے کتنی یہ گردش دوراں
کہ آج اگتے ہیں شام و سحر سلیقے سے
سنا ہے اشک ندامت کی ہے بڑی قیمت
سجا لے پلکوں پہ تو یہ گہر سلیقے سے
اندھیرے سارے اجالوں سا جگمگائیں گے
تو روز و شب پہ نظر رکھ مگر سلیقے سے
تمام عمر تو گزری سلیقے سے سچ ہے
تو اب جہاں سے بھی شاغلؔ گزر سلیقے سے