شاداب انجم کی غزل

    میں میل کا پتھر نہ ڈگر دیکھ رہا ہوں

    میں میل کا پتھر نہ ڈگر دیکھ رہا ہوں پیروں پہ جمی گرد سفر دیکھ رہا ہوں تاریکی نظر آتی ہے کچھ لوگوں کو لیکن میں حمل میں اس شب کے سحر دیکھ رہا ہوں یہ امن کی دھرتی ہے مگر آج یہاں پر تکرار کا عالم ہے جدھر دیکھ رہا ہوں واقف نہیں ہمسائے کے احوال سے لیکن ٹی وی پہ زمانے کی خبر دیکھ رہا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسے ظلم و ستم اور اذیتیں کیسی

    یہ کیسے ظلم و ستم اور اذیتیں کیسی پڑی ہیں میرے ہی پیچھے مصیبتیں کیسی ہوں گھر میں چین سے بھوکے ہیں میرے ہمسائے کسی کے کام نہ آئے تو دولتیں کیسی ہماری سڑکوں پہ بہتی ہیں دودھ کی نہریں ہمیں پتہ ہے کہ ہوتی ہیں جنتیں کیسی جو بھوک سے ہیں پریشاں وہ کب سمجھتے ہیں کہ کیا ہے ذائقہ ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    مانا مرے مکان کی حالت خراب ہے

    مانا مرے مکان کی حالت خراب ہے پر دولت خلوص یہاں بے حساب ہے خوشبو بکھیرتا ہوں بکھرنے کے بعد بھی فطرت ذرا ذرا مری مثل گلاب ہے میری نظر میں کوئی نہیں خوار اور ذلیل ہر آدمی جہان میں عزت مآب ہے مجھ کو گریز اہل جہاں سے نہیں مگر ہیں چند لوگ جن سے مجھے اجتناب ہے رکھتا نہیں ہوں دل میں ...

    مزید پڑھیے

    خیالوں میں کسی کے کھو گئے کیا

    خیالوں میں کسی کے کھو گئے کیا دوانے آپ بھی اب ہو گئے کیا سنی ہے صبح کے آنے کی آہٹ ستارے رات کے دیکھو گئے کیا تو کیا وہ آئے تھے پرسش کو میری وہ گال اشکوں سے اپنے دھو گئے کیا شرارت ہے کہ نادانی تمہاری جگا کر پوچھتے ہو سو گئے کیا نئی نسلیں ہیں کیوں پھولوں سے محروم پرانے لوگ کانٹے ...

    مزید پڑھیے

    ہیں بشر میں صفات مٹھی بھر

    ہیں بشر میں صفات مٹھی بھر پر نہیں خواہشات مٹھی بھر میری آنکھوں میں خواب لا محدود میرے حصے میں رات مٹھی بھر آسماں سے وسیع منصوبے آدمی کی حیات مٹھی بھر دنیوی علم جانتے ہیں سب ماہر دینیات مٹھی بھر زیست میں ہیں مسرتیں لاکھوں اور ہیں حادثات مٹھی بھر مسئلے آئے ہر گھڑی درپیش حل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2