مانا مرے مکان کی حالت خراب ہے

مانا مرے مکان کی حالت خراب ہے
پر دولت خلوص یہاں بے حساب ہے


خوشبو بکھیرتا ہوں بکھرنے کے بعد بھی
فطرت ذرا ذرا مری مثل گلاب ہے


میری نظر میں کوئی نہیں خوار اور ذلیل
ہر آدمی جہان میں عزت مآب ہے


مجھ کو گریز اہل جہاں سے نہیں مگر
ہیں چند لوگ جن سے مجھے اجتناب ہے


رکھتا نہیں ہوں دل میں کوئی آرزوئے عیش
اس میں ہوں مطمئن جو مجھے دستیاب ہے


شکوہ نہ کر جو دور ہے اپنوں سے آج تو
یہ طرز زندگی تو ترا انتخاب ہے


تن سے جدا ہوا ہے ہر اک اٹھنے والا سر
جو جھک گیا ہے آج وہی کامیاب ہے


واقف ہے کون اس کے نشیب و فراز سے
انجمؔ بڑی کٹھن یہ رہ انقلاب ہے