یہ کیسے ظلم و ستم اور اذیتیں کیسی

یہ کیسے ظلم و ستم اور اذیتیں کیسی
پڑی ہیں میرے ہی پیچھے مصیبتیں کیسی


ہوں گھر میں چین سے بھوکے ہیں میرے ہمسائے
کسی کے کام نہ آئے تو دولتیں کیسی


ہماری سڑکوں پہ بہتی ہیں دودھ کی نہریں
ہمیں پتہ ہے کہ ہوتی ہیں جنتیں کیسی


جو بھوک سے ہیں پریشاں وہ کب سمجھتے ہیں
کہ کیا ہے ذائقہ ہوتی ہیں لذتیں کیسی


بھرا ہو پیٹ تو آتا ہے لطف سجدوں میں
وگرنہ کیسی نمازیں عبادتیں کیسی


نہ کوئی فاتحہ خواں ہے نہ کوئی دست دعا
یہ چار سو نظر آتی ہیں تربتیں کیسی


نہ جانے کون سا چھڑکا ہے آب گلچیں نے
گلوں پہ چھائی ہیں انجمؔ یہ دہشتیں کیسی