شاد صدیقی کی غزل

    ہم اپنی ساری خواہش ہر تمنا چھوڑ دیتے ہیں (ردیف .. ے)

    ہم اپنی ساری خواہش ہر تمنا چھوڑ دیتے ہیں تمہیں پانے کو ہم ہر روز کیا کیا چھوڑ دیتے ہیں میں جب بھی سیاہ راتوں میں تمہارا نام لیتا ہوں تمہاری یاد کے جگنو اجالا چھوڑ دیتے ہیں یہ تنہائی ہمیں اک روز تنہا کر کے مانے گی چلو تنہائیوں کو ہم ہی تنہا چھوڑ دیتے ہیں ہمیں اپنی زمیں کا ہی ...

    مزید پڑھیے

    اگر ہم خود کو پہلے روک لیتے

    اگر ہم خود کو پہلے روک لیتے تو شاید سارے صدمے روک لیتے وہ بوڑھی لاش پٹری پر نہ ملتی جو اس کو گھر پہ بیٹے روک لیتے جو تم میرے تھے تو جانا نہیں تھا کسی جاتے کو کیسے روک لیتے یہ بچے ہوٹلوں میں یوں نہ پھنستے اگر جو ان کو بستے روک لیتے اگر اک دوسرے سے یوں نہ لڑتے تو ہم دشمن کے حملے ...

    مزید پڑھیے

    کتنے چہرے بدل رہی دنیا

    کتنے چہرے بدل رہی دنیا خوب شاطر ہے مطلبی دنیا تم کو دھوکا نہیں ملا مطلب تم کو دھوکے میں رکھ رہی دنیا ایک عاشق اداس ہے پھر سے یعنی پھر جیت ہی گئی دنیا تو جسے اپنی دنیا کہتا ہے وہ بسا لے گی اک نئی دنیا ساری دنیا میں تو ہی میرا ہے تیرے ہونے سے ہے مری دنیا

    مزید پڑھیے

    یہ نفرت کا بغیچہ خاک کر دیں

    یہ نفرت کا بغیچہ خاک کر دیں چلو ہم اپنا غصہ خاک کر دیں کچھ اک کردار اترانے لگے ہیں یہ گویا سارا قصہ خاک کر دیں ہمارے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو ہمیں بتلاؤ رستہ خاک کر دیں ہمیں نے دشت سے زمزم نکالا جو ہم چاہیں تو دریا خاک کر دیں ہمیں ڈر ہے جنہیں منصب ملا ہے کہیں وہ ہی نہ نقشہ خاک کر ...

    مزید پڑھیے

    وہ میری راہ سے اب مسکرا کر کیوں نہیں جاتا

    وہ میری راہ سے اب مسکرا کر کیوں نہیں جاتا میں اس کی راہ تکنا چھوڑ کے گھر کیوں نہیں جاتا گر اس کا پیار سچا ہے مری قسمیں کیوں کھاتی ہے اگر جھوٹی ہے وہ لڑکی تو میں مر کیوں نہیں جاتا اگر دل میں محبت ہے تو پھر یہ بے خیالی کیوں اگر نفرت ہے جو دل میں تو دل بھر کیوں نہیں جاتا بچھڑنے کی ...

    مزید پڑھیے

    ساتھ دیں لوگ پھر بھی تنہائی

    ساتھ دیں لوگ پھر بھی تنہائی یعنی میں اور میری تنہائی مجھ کو خود سے سوال کرنے ہیں مجھ کو دے دو نہ تھوڑی تنہائی تو اکیلا کہاں ہے میں ہوں نا مجھ ث آ کر کے بولی تنہائی میں بھی موجود اب نہیں خود میں بھر چکی مجھ میں اتنی تنہائی کس نے کی ہیں یہ بوتلیں خالی پی گیا کون اپنی تنہائی

    مزید پڑھیے

    روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے

    روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے بستر پر اور تکیے پر کیا گزری ہے تم سے تو ہر اشک چھپا لے آئے پر ہم سے پوچھو چشمے پر کیا گزری ہے جس رشتے کی خاطر حد سے گزرے ہم ٹوٹا تو اس رشتے پر کیا گزری ہے تم نے تو بیکار سمجھ کر پھینک دیا پر سوچو اس جھمکے پر کیا گزری ہے ساتھ چلا کرتے تھے جس پر دونوں ...

    مزید پڑھیے