ہم اپنی ساری خواہش ہر تمنا چھوڑ دیتے ہیں (ردیف .. ے)

ہم اپنی ساری خواہش ہر تمنا چھوڑ دیتے ہیں
تمہیں پانے کو ہم ہر روز کیا کیا چھوڑ دیتے ہیں


میں جب بھی سیاہ راتوں میں تمہارا نام لیتا ہوں
تمہاری یاد کے جگنو اجالا چھوڑ دیتے ہیں


یہ تنہائی ہمیں اک روز تنہا کر کے مانے گی
چلو تنہائیوں کو ہم ہی تنہا چھوڑ دیتے ہیں


ہمیں اپنی زمیں کا ہی گھروندا ٹھیک لگتا ہے
تبھی تو ہم ستاروں کا ٹھکانہ چھوڑ دیتے ہیں


کہیں رشتوں کے کمرے میں وہ خود کو قید نہ سمجھیں
سو ہم باہر نکلنے کا بھی رستہ چھوڑ دیتے ہیں


محبت میں کیا ہر ایک وعدہ یوں نبھاتے ہیں
کہ ہم وعدے کی خاطر ساری دنیا چھوڑ دیتے ہیں


زیادہ روشنی میں بھی دکھائی کچھ نہیں دیتا
تمہاری آنکھ کھل جائے اندھیرا چھوڑ دیتے ہیں


یہ دولت غیر کی ہے ساتھ تو جا ہی نہ پائے گی
تو پھر کس کام کا ہے یہ خزانہ چھوڑ دیتے ہیں


ضروری تو نہیں ہے شادؔ ہر قصہ مکمل ہو
تو اپنی اس غزل کو بھی ادھورا چھوڑ دیتے ہے