روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے
روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے
بستر پر اور تکیے پر کیا گزری ہے
تم سے تو ہر اشک چھپا لے آئے پر
ہم سے پوچھو چشمے پر کیا گزری ہے
جس رشتے کی خاطر حد سے گزرے ہم
ٹوٹا تو اس رشتے پر کیا گزری ہے
تم نے تو بیکار سمجھ کر پھینک دیا
پر سوچو اس جھمکے پر کیا گزری ہے
ساتھ چلا کرتے تھے جس پر دونوں اب
تنہا سے اس رستے پر کیا گزری ہے
سب نے موہن کی مجبوری ہی سمجھی
کس نے سمجھا رادھے پر کیا گزری ہے
گھر کو چھوڑ کے جانے والے کیا جانیں
گھر کے ایک اک کمرے پر کیا گزری ہے