وہ میری راہ سے اب مسکرا کر کیوں نہیں جاتا
وہ میری راہ سے اب مسکرا کر کیوں نہیں جاتا
میں اس کی راہ تکنا چھوڑ کے گھر کیوں نہیں جاتا
گر اس کا پیار سچا ہے مری قسمیں کیوں کھاتی ہے
اگر جھوٹی ہے وہ لڑکی تو میں مر کیوں نہیں جاتا
اگر دل میں محبت ہے تو پھر یہ بے خیالی کیوں
اگر نفرت ہے جو دل میں تو دل بھر کیوں نہیں جاتا
بچھڑنے کی خوشی ہے تو مری آنکھوں میں آنسو کیوں
اگر غم ہے جو فرقت کا تو میں مر کیوں نہیں جاتا
زمانہ ہو گیا مجھ سے الگ رہتے ہوئے مجھ کو
مگر پھر بھی ذہن سے وہ ستم گر کیوں نہیں جاتا