نظم
مجھے
فرار بھری جوتیوں نے پہن لیا
اور ایک سفر
ایجاد کیا
میرے ساتھ
میری خاموشی ہے
اک بے سوادی ہے
باقی سب
خواب عشق وفا
نیندیں
سب کچھ جاگیر داری کے
کونے کھدروں میں
پڑے ہوئے ہیں
خاموشی کے دامن سے
وفا کا دامن بڑا ہوتا ہے
پیروں کے چھالے پڑنے پر
وفا کی طلب بڑھتی ہے
میں مور کی مانند
اپنے پیر دیکھ کر
روتی ہوں
میرے قدم
مجھے واپس کر دو
انتقال سے پہلے
میں اپنا دل
کہیں بو دینا چاہتی ہوں