نظم
میں جسم پہ ٹیلکم نہیں
اپنے وجود پہ
نمک چھڑکنا چاہتی ہوں
صدیوں سے جمی ہوئی
برف کاٹنا چاہتی ہوں
کیا تم رشتوں کا الاؤ
دہکا سکتے ہو
میں اپنی آنکھوں کو
آنسوؤں سے
طلاق دلانا چاہتی ہوں
جو صدیوں سے
آنسو کاشت کر رہی ہیں
کیا تم میری آنکھوں کو
خواب دے سکتے ہو
زمانے کے بکھیڑوں میں نہیں
من کی دنیا میں
گھر بنانا چاہتی ہوں
بس اب میں
دل کی بات سننا چاہتی ہوں
کیا تم میرے من میں
بول سکتے ہو