واپسی
نشاط و کیف کے نغمے خلا میں ڈوب گئے زمیں کی آنکھ لگی آسماں ہوا بیدار گلوں کا خون ہوا خار مسکرانے لگے چراغ محفل ہستی کے ٹمٹمانے لگے دلوں کو چیر گئی اک اداس تاریکی تخیلات کے سورج بجھے تو راکھ ہوئے
نشاط و کیف کے نغمے خلا میں ڈوب گئے زمیں کی آنکھ لگی آسماں ہوا بیدار گلوں کا خون ہوا خار مسکرانے لگے چراغ محفل ہستی کے ٹمٹمانے لگے دلوں کو چیر گئی اک اداس تاریکی تخیلات کے سورج بجھے تو راکھ ہوئے
تیرا خیال جیسے کڑاکے کی دھوپ میں تاریک بند کمرے میں ٹھنڈی سی ایک شام گلدان میں سجا ہوا تازہ سا ایک پھول یا زندگی کے ہاتھ میں سرمست ایک جام
میری ہی سوچوں میں کیوں مکڑی نے اتنے جال بنے ہیں پھولوں جیسی یادوں میں یہ کانٹوں جیسی چبھن ہے کیونکر تم مجھ سے میرے خوابوں میں ہر شب ملنے کیوں آتی ہو میرے کندھے پر سر رکھ کر پیار بھرے نغمے گاتی ہو بیکل دل کو بہلاتی ہو لیکن دن میں یہ کیا ہو جاتا ہے تم کو یوں لگتا ہے مجھے دیکھ ...
مجھے ہوش کب تھا کہ یہ میری خوشیاں غموں کے فلک پر ہیں برسات میں ایک قوس قزح جھپکتے ہی آنکھیں سبھی رنگ غائب اور اب جب کہ قوس قزح مٹ چکی ہے ہر اک سمت سے ایک اک کر کے بادل غم آلود بادل چلے آ رہے ہیں خدا جانے میں کیوں پریشاں نہیں ہوں یہ کیا ماجرا ہے
اور میں سوچتا ہوں یوں ہی عمر بھر ایک کمرے میں شطرنج کی میز پر تم مسلسل مجھے مات دیتی رہو میں مسلسل یوں ہی مات کھاتا رہوں اپنی تقدیر پر مسکراتا رہوں
تیری تصویر تو ڈھونڈے سے مجھے مل نہ سکی ہاں تیرے خط تھے میرے پاس امانت کی طرح ایک گمنام سی خاموش محبت کی طرح آج کی رات میری جان وہ پانی برسا چھت ٹپکتے ہی ترے ہاتھ کی اک اک تحریر لقمۂ آب ہوئی زندگی خواب ہوئی