Seema Shakeb

سیما شکیب

سیما شکیب کی نظم

    پیکار

    بدن میں میٹھے میٹھے درد کی خوشبو بسی ہے تھکن چادر بنی لپٹی ہوئی ہے سنہری شہد جیسی نیند پلکوں کو بہم جوڑے ہوئے خوابوں کے جھولے میں ابھی کچھ اور پینگیں چاہتی ہے نیم تاریکی کھنچے پردوں سے لگ کر اونگھتی ہے کرن دہلیز پر ٹھہری ہوئی ہے ملائم سا اجالا ضد میں آ کر کھڑکیوں پر دستکیں دیتا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی نخل امید سرسبز ہے

    کانچ کے خواب جیسی وادیاں تھرتھرائی ہوئی دفعتاً موت کی وادیوں میں بدلتی گئیں کچھ نہیں بچ سکا زخم ہی زخم ہیں خون ہی خون ہے سنگ و آہن خس و خاک کے ڈھیر میں زندگی نیم مدفون ہے کوئی چارہ نہیں راہ مسدود ہے ہاں مگر بے بسی کے اندھیروں سے لڑتی ہوئی ایک ننھی کرن آنسوؤں کی لڑی میں چمکتی ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑوں پر میں ننگے پاؤں چلنا چاہتی ہوں

    حدود شہر سے باہر کڑکتی دھوپ میں چٹئیل پہاڑوں پر میں ننگے پاؤں چلنا چاہتی ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے ہوا صحرا میں تنہائی کا نوحہ پڑھ رہی ہے چٹانوں کے بدن میرے گلابی نرم تلووں سے کچل جانے کی حسرت میں سلگتے ہیں دہکتے پتھروں کے ہونٹ میری انگلیوں کے لمس کی چاہت میں جلتے ہیں کسی ذی روح کے ...

    مزید پڑھیے

    سیفٹی والو

    غضب کی تپش ہے گھٹن اس قدر دل میں بہتے لہو کی جگہ آگ پھنکنے لگی ہے سو رگ رگ میں چنگاریاں ہیں سلگتی ہوئی سرخ آنکھوں میں آنسو نہیں ہلکا ہلکا دھواں ہے کسی نیم خوابیدہ آتش فشاں کے دہانے سے لاوا ابلنے کو بے چین ہے شہر کا شہر لقمہ بنے آگ کا ڈھیر ہو راکھ کا اس سے پہلے اگر میرا اک ...

    مزید پڑھیے

    رہائی کب ملے گی

    مرا دل ایک ننھا سا قفس ہے یوں تو اس میں چار خانے ہیں لہو میں تر بہت سے شاخسانے ہیں فسانے ہیں خزانے ہیں یہاں رنگیں پرندوں کی طرح نازک بہت سے لفظ قیدی ہیں نڈھال افسردہ پژمردہ مگر اب بھی رخ قرطاس کی تزئین و آرائش سماعت کی فضاؤں میں بکھر جانے کی خواہش زندگی کی دستکوں میں تلملاتی ...

    مزید پڑھیے

    ہم سب کے دکھ سانجھے ہیں

    جیراں تو ہر وقت یہ کچی چھت کا کیا رونا روتی ہے برساتیں جاڑے پالے گرم ہوا اور دھوپ سلگتی موسم کی ہر سختی تجھ کو سہنا ہی ہے پکی چھت کو دیکھ کے ٹھنڈی آہ نہ بھر میرے جیسی بن جانے کی چاہ نہ کر جو کچھ تو دیکھا کرتی ہے سب آنکھوں کا دھوکا ہے دکھ کے موسم تجھ سے زیادہ میرے دل نے جھیلے ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے