سیفٹی والو
غضب کی تپش ہے
گھٹن اس قدر دل میں بہتے لہو کی جگہ
آگ پھنکنے لگی ہے
سو رگ رگ میں چنگاریاں ہیں
سلگتی ہوئی سرخ آنکھوں میں
آنسو نہیں ہلکا ہلکا دھواں ہے
کسی نیم خوابیدہ آتش فشاں کے دہانے سے
لاوا ابلنے کو بے چین ہے
شہر کا شہر لقمہ بنے آگ کا
ڈھیر ہو راکھ کا
اس سے پہلے اگر میرا اک مشورہ
اہل دربار کو بار خاطر نہ ہو
لکھنے والوں کے ہاتھوں میں دے دو قلم
لفظ کی بیڑیاں کھول دو