رہائی کب ملے گی
مرا دل ایک ننھا سا قفس ہے
یوں تو اس میں چار خانے ہیں
لہو میں تر بہت سے شاخسانے ہیں
فسانے ہیں خزانے ہیں
یہاں رنگیں پرندوں کی طرح نازک
بہت سے لفظ قیدی ہیں
نڈھال افسردہ پژمردہ مگر اب بھی
رخ قرطاس کی تزئین و آرائش
سماعت کی فضاؤں میں
بکھر جانے کی خواہش
زندگی کی دستکوں میں تلملاتی ہے
اداس آنکھوں سے کہتی ہے
کہ ہم کو مصلحت کی قید سے آخر رہائی کب ملے گی