پہاڑوں پر میں ننگے پاؤں چلنا چاہتی ہوں

حدود شہر سے باہر
کڑکتی دھوپ میں چٹئیل پہاڑوں پر
میں ننگے پاؤں چلنا چاہتی ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے
ہوا صحرا میں تنہائی کا نوحہ پڑھ رہی ہے چٹانوں کے بدن
میرے گلابی نرم تلووں سے کچل جانے کی حسرت میں سلگتے ہیں
دہکتے پتھروں کے ہونٹ
میری انگلیوں کے لمس کی چاہت میں جلتے ہیں
کسی ذی روح کے قدموں کی آہٹ کو ترستی یہ چٹانیں
جانے کب سے منتظر ہیں ان کی جو دکھ بانٹ لیتے ہیں
قریب آتے ہیں
دوری کی خلیجیں پاٹ لیتے ہیں
میں ان سے جا ملوں گی اور سرگوشی کروں گی
سنو میں بھی دکھی ہوں فرق بس یہ ہے
تمہیں تنہائی کا غم ہے مجھے لوگوں سے مل کر دکھ ملے ہیں
سنو تنہائی بے شک جاں گسل ہے دشمن دل ہے
مگر تنہائی میں پھر بھی اماں ہے یہ دکھ کیسا ہی گہرا کیوں نہ ہو
پھر بھی رگ جاں سے قریب آئے ہوئے
لوگوں کے بخشندہ دکھوں سے کم ہی ہوگا
کم ہی ہوتا ہے اسے سہنا بہت مشکل سہی ممکن تو ہوتا ہے