Seema Naqvi

سیما نقوی

سیما نقوی کی غزل

    کتاب ہجر میں اک حرف نارسا کی طرح

    کتاب ہجر میں اک حرف نارسا کی طرح مجھے بھی لکھے کوئی جان فارہہ کی طرح بھلے یہ ہاتھ بندھے ہیں مگر یہ کاجل ہے سو پھیل جاتا ہے اک کاسۂ گدا کی طرح وہ مجھ سے ملتا تھا ہر بار اپنی شرطوں پر کبھی خطا کی طرح اور کبھی سزا کی طرح مجھے ستاتی رہیں تتلیاں شرارت سے گلوں کی بات وہ کرتا رہا صبا کی ...

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ دور رہ کر بھی ہمیشہ پاس ہوتا ہے

    ہمیشہ دور رہ کر بھی ہمیشہ پاس ہوتا ہے محبت میں کوئی اک شخص کتنا خاص ہوتا ہے کسی سے دل ہی دل میں روٹھنا پھر خود ہی من جانا گماں اس پر کہ شاید اس کو بھی احساس ہوتا ہے کسی کے ساتھ رہنا اور وہ بھی اجنبی بن کر کسی کو کیا پتا کتنا بڑا بن باس ہوتا ہے بکھرتا جاتا ہے ہر سو مہکتا مشک بو ...

    مزید پڑھیے

    پاس آنے پہ وہ انساں بھی نہیں لگتے ہیں (ردیف .. ے)

    پاس آنے پہ وہ انساں بھی نہیں لگتے ہیں دور سے لوگ جو لگتے ہیں خداؤں جیسے سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے راستو ہم بھی نہیں ڈر کے ٹھہرنے والے مارنے والے کوئی اور سبب ڈھونڈ کہ ہم مارے جانے کے تو ڈر سے نہیں مرنے والے کتنی جلدی میں ہوا ختم ملاقات کا وقت ورنہ کیا کیا نہ سوالات تھے ...

    مزید پڑھیے

    میں تو نہیں ہوں ان کے جیسی یہ تو اڑنا جانے ہیں

    میں تو نہیں ہوں ان کے جیسی یہ تو اڑنا جانے ہیں یہ جو سب خوش رنگ پرندے پنجرے کے دیوانے ہیں بیٹھ ذرا آرام سے دل کی ڈور مجھے سلجھانے دے الجھی الجھی دھڑکن کے کمزور سے تانے بانے ہیں اپنی خاک سے دور سہی پر سوندھی ہے ہجرت کی دھول کہنے دو کہنے والو کو دور کے ڈھول سہانے ہیں صرف گھڑی کی ...

    مزید پڑھیے

    سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے

    سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے راستو ہم بھی نہیں ڈر کے ٹھہرنے والے مارنے والے کوئی اور سبب ڈھونڈ کہ ہم مارے جانے کے تو ڈر سے نہیں مرنے والے کتنی جلدی میں ہوا ختم ملاقات کا وقت ورنہ کیا کیا نہ سوالات تھے کرنے والے گفتگو خود سے ہوئی اپنے ہی حق میں ورنہ سچ سے اس بار تو ہم بھی تھے ...

    مزید پڑھیے

    صبح ازل سے شام ابد تک آنا جانا ہوتا ہے

    صبح ازل سے شام ابد تک آنا جانا ہوتا ہے منزل تک جانے کا رستہ کس نے پانا ہوتا ہے میں اک عورت ہوں گھر بھر کی ذمہ داری ہے میری مردوں کو تو کام بڑے ہیں چاند پہ جانا ہوتا ہے میری باری میں ہی قسمت کیوں کرتی ہے من مانی ہونے کو تو جو ہوتا ہے ایک بہانہ ہوتا ہے لیلیٰ اور مجنوں کے قصے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    بے خبر کچھ نہ جیتے جی سمجھے

    بے خبر کچھ نہ جیتے جی سمجھے جاں سے گزری تو زندگی سمجھے اب بہت دیر ہو چکی چھوڑو مرتے مرتے بھی کیا کوئی سمجھے اک ذرا آئینہ دکھایا تھا آپ جس کو کھری کھری سمجھے دھن کے پکے ہیں کر ہی جائیں گے جو بھی اس دل نے ٹھان لی سمجھیں ہم تھے خوف فساد خلق سے چپ لوگ احساس برتری سمجھے او میرا حال ...

    مزید پڑھیے

    ہجر جب طے ہے تو بے کار نہ حجت کرنا

    ہجر جب طے ہے تو بے کار نہ حجت کرنا جانے والے کو بہت پیار سے رخصت کرنا وہ جو بھیجے تھے تری مست نگاہوں نے پیام ایک بار اور ذرا ان کی وضاحت کرنا سب کے ہاتھوں میں یہ اعجاز مسیحائی کہاں ایک ہی لمس کا منصب ہے کرامت کرنا یہ تو ایسا ہے کہ اس راہ میں چل پڑیے عشق کرنا تو بغیر اذن و اجازت ...

    مزید پڑھیے

    گو کم سخن ہے بھری محفلوں میں تنہا ہے

    گو کم سخن ہے بھری محفلوں میں تنہا ہے وہ اپنے آپ سے ملتا ہے بات کرتا ہے جو بات دونوں میں ہونی تھی ہو نہ پائی کبھی سو گھر میں آج بھی تنہائیوں کا ڈیرا ہے ہر ایک حال میں رہتے ہیں عشق والے خوش وصال و ہجر کے مابین ایسا رشتہ ہے کھڑا ہے صحن میں تنہا جو ٹنڈمنڈ درخت نہ جانے اس کو پرندوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    نظم لکھنے کو استعارے بہت

    نظم لکھنے کو استعارے بہت ہیں سمجھ دار کو اشارے بہت گہرے پانی میں خودکشی کیسی ڈوبنے کو یہاں کنارے بہت پھول جگنو صبا دھنک تتلی آئینے پار تھے نظارے بہت ٹھہریے آپ چل دئے ہیں کہاں ہیں سوال اور بھی ہمارے بہت ہار جائے نہ کھیل کھیل میں چاند وہ اکیلا ہے اور ستارے بہت کوئی سنتا نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2