Seema Naqvi

سیما نقوی

سیما نقوی کی غزل

    پڑ گئے کیوں میرے پیچھے ہیں عجب استاد جی

    پڑ گئے کیوں میرے پیچھے ہیں عجب استاد جی آ گئے تصحیح کرنے بے سبب استاد جی چاند چہرے کو گھٹا زلفوں کو کہتے ہیں مری سارے ٹھرکی عاشقوں میں ہیں غضب استاد جی مطلع سے مقطع تلک ساری غزل تھرا اٹھے آئیں جب مجھ کو سکھانے شعری ڈھب استاد جی ان کو بتلا دو جلانا پڑتا ہے خون جگر یوں ہی بن جاتے ...

    مزید پڑھیے

    ایک بس تو نہیں ملتا ہے مجھے کھونے کو

    ایک بس تو نہیں ملتا ہے مجھے کھونے کو ورنہ کیا کچھ نہیں ہوتا ہے یہاں ہونے کو دیکھ بے درد زمانے کی زبوں حالی دیکھ ایک شانہ نہیں ملتا ہے جہاں رونے کو رات بھر خود سے گلے مل کے بہت روتی ہوں جھوٹے منہ بھی نہیں کہتا ہے کوئی سونے کو کتنی میلی ہے ہوس ناک نگاہوں کی چمک کہ سمندر بھی بہت کم ...

    مزید پڑھیے

    ایک منظر میں کئی بار اسے دیکھ کے دیکھ

    ایک منظر میں کئی بار اسے دیکھ کے دیکھ دیکھنا ہے تو لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ کوئی سورج سے ملا پاتا ہے کب تک آنکھیں پھر بھی اک بار لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ یہ کھلی آنکھ کا منظر ہی نہیں ہے مری جاں بند آنکھوں سے بھی اک بار اسے دیکھ کے دیکھ برف آنکھوں میں لئے دور کھڑے شخص کی خیر کیسے ...

    مزید پڑھیے

    ابر ہی ابر ہے برستا نئیں

    ابر ہی ابر ہے برستا نئیں اب کے ساون تمہارے جیسا نئیں خواب اور سینت کر رکھیں آنکھیں ان سے آنسو تو اک سنبھلتا نئیں گھومتی ہے زمین گرد مرے پاؤں اٹھتے ہیں رقص ہوتا نئیں نوچ ڈالے ہیں اپنے پر میں نے میں بھی انسان ہوں فرشتہ نئیں کیسا ہرجائی ہو گیا آنسو میرا دامن ہے اور گیلا نئیں کب ...

    مزید پڑھیے

    سرخ سنہری سبز اور دھانی ہوتی ہے

    سرخ سنہری سبز اور دھانی ہوتی ہے جھیل کنارے شام سہانی ہوتی ہے خود سے جب بھی آنکھ ملانی ہوتی ہے آنکھ تو جیسے پانی پانی ہوتی ہے رقص کرے اور آنکھ میں پانی بھر آئے ہر لڑکی تھوڑی دیوانی ہوتی ہے کتنی بوجھل ہے خفت کی گٹھری بھی جو مجھ کو ہر روز اٹھانی ہوتی ہے وہ کب بنا بتائے وعدہ توڑ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2