نظم لکھنے کو استعارے بہت
نظم لکھنے کو استعارے بہت
ہیں سمجھ دار کو اشارے بہت
گہرے پانی میں خودکشی کیسی
ڈوبنے کو یہاں کنارے بہت
پھول جگنو صبا دھنک تتلی
آئینے پار تھے نظارے بہت
ٹھہریے آپ چل دئے ہیں کہاں
ہیں سوال اور بھی ہمارے بہت
ہار جائے نہ کھیل کھیل میں چاند
وہ اکیلا ہے اور ستارے بہت
کوئی سنتا نہ تھا پس دیوار
جب کہ اس پار سب پکارے بہت
کون جیتا بلا سے کیا معلوم
ہم تو کھیلے بنا بھی ہارے بہت
کیسے کہہ دوں کہ دل کی باتوں میں
فائدے کم رہے خسارے بہت
زندہ درگور ہو گئے خود میں
ہم تھے سچائیوں کے مارے بہت