غریب کسان
اے نیچر کے راج دلارے
اے فطرت کی آنکھ کے تارے
محنت کا پھل پانے والے
کاندھے پر ہل لے جانے والے
صدیاں پلٹیں دنیا بدلے
یا ملکوں کا نقشہ بدلے
کچھ سے کچھ ہوں رنگ فضا کے
چرخ سے برسیں آگ کے شعلے
دھیمی ہو یا تند ہوا ہو
عالم ہر وادی کا نیا ہو
چرخ ہزاروں پلٹے کھائے
کیا ممکن جو تجھ کو ستائے
سارے جہاں میں جنگ چھڑی ہو
دنیا بھر میں آگ لگی ہو
کیوں ہو شورش تیری صدا میں
امن ہو جب کھیتوں کی فضا میں
گیت ہی تیرا نغمۂ شادی
تجھ پر صدقے ہر آزادی
سب پر حاوی ہمت تیری
سچی ہے یہ شوکت تیری
وقت کو تو غفلت میں نہ کھوئے
کھیت میں تو کانٹوں کو نہ بوئے
گھاس ہے تیرا بستر مخمل
اوڑھنے کو بوسیدہ کمل
جنگل جھاڑی بستی تیری
شاہ سے بہتر ہستی تیری
تو ہے اور زمانہ تیرا
ہم ہیں اور فسانہ تیرا