آنسو

اے مرے آنسو کبھی بیکار ہو جاتا ہے تو
اور کبھی دامن پہ بن جاتا ہے اک نقش وفا
تیری قیمت کچھ نہیں رہتی ہے نظروں میں کبھی
اور کبھی ہو جاتا ہے گنج ہائے بے بہا
پرورش پاتا ہے تو قلب حزیں میں اس طرح
جس طرح چشم صدف میں گوہر سرمایہ دار
تیرے سینے میں ہیں پنہاں راز ہائے رنج و غم
تو ہے پچھلی کیف پرور صحبتوں کا یادگار
تو کبھی بن جاتا ہے پھولوں میں قطرہ اوس کا
اور کبھی تاریک بادل میں ستارے کی ضیا
جلوہ گر ہوتا ہے تو بجلی کے پہلو میں کبھی
اور کبھی تو خود ہی بن جاتا ہے شعلہ قہر کا
دیکھ کر تجھ کو کبھی ہوتا ہے سینہ غم سے شق
اور کبھی آنکھوں میں بن جاتا ہے تو وجہ نشاط
ترجمان حال دل ہے غم کی خاموشی میں تو
اک سمندر ہے اگر حاصل ہو تجھ کو انبساط
تو ہی مظلوموں کی فریادوں کا ہے فریاد رس
غم کے شعلوں کو بجھا دیتا ہے دل میں آ کے تو
ختم ہو جاتی ہے کلفت تیری طغیانی کے ساتھ
نغمۂ عشرت سنا دیتا ہے دل میں آ کے تو