Sandeep Thakur

سندیپ ٹھاکر

  • 1976

سندیپ ٹھاکر کی غزل

    ڈھلتے دن کے دھندھلے سائے

    ڈھلتے دن کے دھندھلے سائے شام کو مجھ سے ملنے آئے شاور سے جب بادل برسے زلفیں کھولے شام نہائے دریا سا آگے بڑھتا چل راہ میں چاہے پربت آئے شام ڈھلے پھر میرے گھر میں کس نے آ کر بلب جلائے تم سا کوئی مجھ سے لپٹے خود روئے اور مجھے رلائے بادامی بادل کے پیچھے ایک پرندہ اڑتا جائے منزل ...

    مزید پڑھیے

    پہنے کپڑے سنہرے چمکتی ہوئی

    پہنے کپڑے سنہرے چمکتی ہوئی دھوپ آئی مرے گھر جھجکتی ہوئی پھول سا اک لفافہ میرے نام کا ایک چٹھی تھی اس میں مہکتی ہوئی پل کے محراب بھی ڈوبے تھے پانی میں بہہ رہی تھی ندی بھی لچکتی ہوئی میں نے محسوس کی ہے میرے ہاتھ سے رات ریشم کی طرح سرکتی ہوئی آج پھر روٹھ کے لوٹ جائے گی گھر ایک ...

    مزید پڑھیے

    خیالوں میں رہتے ہیں جو ساتھ میرے

    خیالوں میں رہتے ہیں جو ساتھ میرے کبھی چھو نہ پائے انہیں ہاتھ میرے لبوں پہ ہمیشہ ترا نام آیا دعا کے لیے جب اٹھے ہاتھ میرے لئے کانچ جیسا بدن پتھروں پہ بڑی دور تک وہ چلا ساتھ میرے میں تیرے محل کی طرف جب چلا تھا لپٹتے تھے قدموں سے فٹ پاتھ میرے ابھی تک مہکتی ہیں کلیاں لبوں کی کسی ...

    مزید پڑھیے

    پہلے وہ دیوار پر نقشہ لگائے

    پہلے وہ دیوار پر نقشہ لگائے بعد میں رستوں کا اندازہ لگائے جانے سورج نے ندی سے کیا کہا ہے بہہ رہی ہے دھوپ کا چشمہ لگائے چاند کی آنکھیں بڑی دکھنے لگیں گی رات گر سرمہ ذرا گہرا لگائے میں سمندر کے سفر سے لوٹ آؤں وہ اگر آواز دوبارہ لگائے شام کا دل کل ہی ٹوٹا آج پھر کیوں آ گئی امید کا ...

    مزید پڑھیے

    بہتے پانی پہ ایک دریا نے

    بہتے پانی پہ ایک دریا نے اپنی لہروں سے لکھے افسانے بادلوں میں سمیٹ کے بارش اشک دھرتی کے لائی لوٹانے کاغذی پھول کی مہک کا سچ یہ دیہاتی پرندہ کیا جانے جھومی دیواریں کس کی آہٹ پہ تلسی آنگن لگی ہے مہکانے شام کی راہ تکتے ہیں کب سے دھوپ میں پیڑ چھتریاں تانے ہم سمجھتے ہیں ایک دوجے ...

    مزید پڑھیے

    خود سے اپنا ہاتھ چھڑا کر چلنا مشکل ہو جاتا ہے

    خود سے اپنا ہاتھ چھڑا کر چلنا مشکل ہو جاتا ہے ریت لہر کو پی جاتی ہے دریا ساحل ہو جاتا ہے بعد تمہارے یہ ہی موسم کتنا بوجھل ہو جاتا ہے ساتھ تمہارے یہ ہی موسم کتنا خوش دل ہو جاتا ہے آنکھ برابر ساتھ گھٹا کے خوب برستی ہے مل جل کے باہر بوندیں اندر آنسو سب کچھ جھلمل ہو جاتا ہے جس کو ...

    مزید پڑھیے

    اشک تنہائی اداسی رہ گئی

    اشک تنہائی اداسی رہ گئی ان دنوں کی یاد باقی رہ گئی موڑ پہ وہ آنکھ سے اوجھل ہوا بے قراری راہ تکتی رہ گئی تتلی کی پرواز کیسے دیکھتا آنکھ تو رنگوں میں الجھی رہ گئی سپنے تو سپنے تھے سپنے ہی رہے زندگی سپنے سجاتی رہ گئی باڑھ کا پانی تو اترا ہے مگر ہر طرف سڑکوں پہ مٹی رہ گئی پھر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی اک فلم ہے ملنا بچھڑنا سین ہیں

    زندگی اک فلم ہے ملنا بچھڑنا سین ہیں آنکھ کے آنسو ترے کردار کی توہین ہیں ایک ہی موسم وہی منظر کھٹکنے لگتا ہے سچ یہ ہے ہم عادتاً بدلاؤ کے شوقین ہیں نیند میں پلکوں سے میری رنگ چھلکے رات بھر آنکھ میں ہیں تتلیاں تو خواب بھی رنگین ہیں راہ تکتی رات کا یہ رنگ ہے تیرے بنا چاند بھی مایوس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2