پہنے کپڑے سنہرے چمکتی ہوئی
پہنے کپڑے سنہرے چمکتی ہوئی
دھوپ آئی مرے گھر جھجکتی ہوئی
پھول سا اک لفافہ میرے نام کا
ایک چٹھی تھی اس میں مہکتی ہوئی
پل کے محراب بھی ڈوبے تھے پانی میں
بہہ رہی تھی ندی بھی لچکتی ہوئی
میں نے محسوس کی ہے میرے ہاتھ سے
رات ریشم کی طرح سرکتی ہوئی
آج پھر روٹھ کے لوٹ جائے گی گھر
ایک لڑکی مری راہ تکتی ہوئی
دیر تک شام پربت پہ بیٹھی رہی
گھٹنوں میں منہ چھپائے سبکتی ہوئی
شاخ سے توڑ لے گا کوئی کھلتے ہی
ہر کلی ڈر رہی ہے چٹکتی ہوئی
یاد چنتی رہی بیتے پل رات بھر
چاند کے جنگلوں میں بھٹکتی ہوئی