بہتے پانی پہ ایک دریا نے
بہتے پانی پہ ایک دریا نے
اپنی لہروں سے لکھے افسانے
بادلوں میں سمیٹ کے بارش
اشک دھرتی کے لائی لوٹانے
کاغذی پھول کی مہک کا سچ
یہ دیہاتی پرندہ کیا جانے
جھومی دیواریں کس کی آہٹ پہ
تلسی آنگن لگی ہے مہکانے
شام کی راہ تکتے ہیں کب سے
دھوپ میں پیڑ چھتریاں تانے
ہم سمجھتے ہیں ایک دوجے کو
تم بھی دیوانے ہم بھی دیوانے
دل کی گہرائیاں اندھیری ہیں
اس محل کا نصیب تہہ خانے
رات بھر سسکا بازوؤں میں مرے
چاند آیا تھا مجھ کو سمجھانے