Sandeep Shajar

سندیپ شجر

سندیپ شجر کی غزل

    خواہشوں کا مقام تھوڑی ہے

    خواہشوں کا مقام تھوڑی ہے دل کا کوئی نظام تھوڑی ہے عمر ہے یہ مرض بھی ہونا ہے اب کوئی روک تھام تھوڑی ہے یوں ہی بس ہاں میں ہاں ملاتے ہیں آپ کا احترام تھوڑی ہے شاعری بے لباس اف توبہ بزم ہے یہ حمام تھوڑی ہے داد و تحسین سب اسی کی ہے میرا خود کا کلام تھوڑی ہے

    مزید پڑھیے

    اک نظر دیکھ لے تو ادھر زندگی

    اک نظر دیکھ لے تو ادھر زندگی کیسے ہوتی ہے تجھ بن بسر زندگی اک صدی کی طرح عمر گزری مری زندگی تھی مگر مختصر زندگی ہاتھ سے ہاتھ چھوٹا ہے جب سے ترا ڈھونڈھتا ہوں تجھے در بدر زندگی روح سے دل سے رشتہ رہا ہی نہیں لوگ جیتے رہے جسم بھر زندگی سانس بوجھل ہوئی جسم بھی تھک گیا موت بولی کہ چل ...

    مزید پڑھیے

    کیوں کسی نے تمہیں روکا تو نہ تھا آ جاتے

    کیوں کسی نے تمہیں روکا تو نہ تھا آ جاتے اور انجان بھی رستہ تو نہ تھا آ جاتے اس سے پہلے یہ بہانہ تو نہ تھا آ جاتے درمیاں اپنے زمانہ تو نہ تھا آ جاتے وہم ہے آپ کا ایسا تو نہ تھا آ جاتے بزم میں غیر کا چرچا تو نہ آ جاتے حال بیمار بھی اچھا تو نہ تھا آ جاتے زخم مجھ پر کوئی تازہ تو نہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    سنا رہے ہیں وہ یوں اعتبار کے قصے

    سنا رہے ہیں وہ یوں اعتبار کے قصے خزاں کے دور میں جیسے بہار کے قصے کہیں گے ہم بھی کبھی انتظار کے قصے تمہارا پیار شجر اور پیار کے قصے اداس لہجے میں کچھ شعر ہیں جو رومانی انہیں سمجھنا کہ سب ہیں ادھار کے قصے دلوں کی تہ میں صدا اشک ابلتے رہتے ہیں ہر ایک صحرا میں ہیں آبشار کے قصے یہ ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں ہو کے تر بہ تر جانا

    عشق میں ہو کے تر بہ تر جانا دل کی خواہش ہے تجھ پہ مر جانا عشق یہ ہے نہیں تو پھر کیا ہے میرا چھونا ترا نکھر جانا تجھ کو دیکھے تو پھر یہ لازم ہے چاند کے چہرے کا اتر جانا یہ مرا دل ہے سنگ مرمر سا چاندنی بن کے تم بکھر جانا تو محبت کا آشیانہ تھا چھوڑ کر تجھ کو اے شجرؔ جانا

    مزید پڑھیے

    ہم اسے پیار کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے

    ہم اسے پیار کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے مسئلہ یہ ہے کہ دھوکا بھی نہیں دے سکتے بیچ مجھدھار میں خود چھوڑ دی جس نے پتوار اب اسے تم کوئی تنکا بھی نہیں دے سکتے دریا دل وہ کے ہمیں سونپ دی غم کی جاگیر خود غرض ہم اسے حصہ بھی نہیں دے سکتے چاند بھی دور ادھر اور ہوا بھی ہے خلاف ہم تو اڑتا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی امید کا تارا کہاں سے ملتا ہے

    کوئی امید کا تارا کہاں سے ملتا ہے یہ مفلسی کو سہارا کہاں سے ملتا ہے سوال یہ نہیں خنجر ہے کن کے ہاتھوں میں سوال ہے کہ اشارہ کہاں سے ملتا ہے کوئی جو ڈوب کے دیکھے تو جان پائے گا ہمیں پتہ ہے کنارہ کہاں سے ملتا ہے بتا اے زندگی ہر دم تجھے مری خاطر فقط غموں کا پٹارا کہاں سے ملتا ...

    مزید پڑھیے

    درد کے انقلاب سے ہارا

    درد کے انقلاب سے ہارا ایک پتھر گلاب سے ہارا سب سوالوں نے خودکشی کر لی جب میں اس کے جواب سے ہارا کیا مرا درد بانچ لیتا جو آئنہ اک نقاب سے ہارا اس کو بھی جیت کا گمان رہے میں بھی کچھ اس حساب سے ہارا آخری سانس لے رہی تھی رات جب چراغ آفتاب سے ہارا

    مزید پڑھیے