Samina Saqib

ثمینہ ثاقب

ثمینہ ثاقب کی غزل

    بدن یہ جس کے لئے شام جیسا سایا ہے

    بدن یہ جس کے لئے شام جیسا سایا ہے وہ شخص آج بھی میرے لئے پرایا ہے فضا میں آج پرندوں کی چہچہاہٹ ہے عجب سا شور درختوں نے بھی مچایا ہے گذشتہ دور کی لیلیٰ سے مختلف ہوں میں کہ میں نے عشق کمایا ہے گھر بسایا ہے یہ میرا خاکی بدن لے رہا ہے اکھڑی سانس سو میں نے بھیجا ہے قاصد اسے بلایا ...

    مزید پڑھیے

    جستجو سے خدا ملا کہ نہیں

    جستجو سے خدا ملا کہ نہیں تجھ پہ در ساتواں کھلا کہ نہیں کیا کہا پاؤں گھس گئے تیرے سوچ نے بھی سفر کیا کہ نہیں تیری خاطر بدن جلا بیٹھے پھر بھی تیرا دیا جلا کہ نہیں لوگ لاکھوں پرکھ لئے تم نے میرے جیسا کوئی ملا کہ نہیں سب نے پوچھا تو تھا مرا لیکن ذکر اس نے مرا کیا کہ نہیں میں جو ...

    مزید پڑھیے

    کیسا پیارا شخص تھا اور میں خواب میں رکھ کر بھول گئی

    کیسا پیارا شخص تھا اور میں خواب میں رکھ کر بھول گئی جیسے کاغذ کی کشتی گرداب میں رکھ کر بھول گئی روشن روشن موتی جیسا صاف سجیلا پانی تھا جانے کون تھی چاند کو جو تالاب میں رکھ کر بھول گئی جب بھی اس پہ کھلنا چاہا گال حیا سے لال ہوئے اس کو پانے کی خواہش آداب میں رکھ کر بھول گئی سوچ ...

    مزید پڑھیے

    پیڑ تعبیر کے ہرے ہوتے

    پیڑ تعبیر کے ہرے ہوتے میرے گر خواب نا بکے ہوتے کاش ہم ایک ہی محلے میں مل کے اک ساتھ ہی بڑے ہوتے پھر بھی کچھ آسرا تو ہو جاتا ساتھ کھوٹوں کے گر کھرے ہوتے ہم کبھی راستہ بھٹکتے نہیں دیپ راہوں میں گر جلے ہوتے دشت سے یوں نہ واسطہ پڑتا ہم اگر عشق سے پرے ہوتے دھوپ سے دوستی اگر ...

    مزید پڑھیے

    مجھے کہانی کے کردار سے محبت تھی

    مجھے کہانی کے کردار سے محبت تھی کہ جس میں سائے کو دیوار سے محبت تھی وہ اس لئے بھی نہیں چھوڑتا تھا ساتھ مرا اسے بھی اپنے عزادار سے محبت تھی کچھ اس لئے بھی میں صحرا سے آ گئی جنگل مری سرشت میں اشجار سے محبت تھی عزیز تر مجھے چادر تھی جس طرح اپنی اسے بھی ویسے ہی دستار سے محبت ...

    مزید پڑھیے

    بارہا دل توڑنا اچھا نہیں

    بارہا دل توڑنا اچھا نہیں مان جاؤ روٹھنا اچھا نہیں زندگی ہر موڑ پر غم دے چکی اب ترا منہ پھیرنا اچھا نہیں ہاتھ کو ہاتھوں میں لینا ٹھیک پر چوڑیوں کو توڑنا اچھا نہیں غیر سے ملنا گوارا ہے تمہیں بس ہمارا سامنا اچھا نہیں عشق کو سنجیدگی سے لو میاں عشق میں یہ بچپنا اچھا نہیں جیتنا ...

    مزید پڑھیے

    لبوں سے گو ابھی کہتے نہیں ہو

    لبوں سے گو ابھی کہتے نہیں ہو محبت تم بھی کم کرتے نہیں ہو شجر پر دیکھ کے خوش ہو رہے ہو ثمر کو توڑ کر چکھتے نہیں ہو میں تم پہ رک گئی ہوں جھیل جیسے مگر دریا ہو تم رکتے نہیں ہو محبت تجھ کو اشکوں سے بھی سینچا وہ پودے ہو کہ جو بڑھتے نہیں ہو بہت مغرور ہوتے جا رہے ہو یہ کیا کہ بات بھی ...

    مزید پڑھیے

    بدن یہ جس کے لئے شام جیسا سایا ہے

    بدن یہ جس کے لئے شام جیسا سایا ہے وہ شخص آج بھی میرے لئے پرایا ہے فضا میں آج پرندوں کی چہچہاہٹ ہے عجب سا شور درختوں نے بھی مچایا ہے گذشتہ دور کی لیلیٰ سے مختلف ہوں میں کہ میں نے عشق کمایا ہے گھر بسایا ہے ی میرا خاکی بدن لے رہا ہے اکھڑی سانس سو میں نے بھیجا ہے قاصد اسے بلایا ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے غم چھپانا چاہتی ہوں

    میں اپنے غم چھپانا چاہتی ہوں ذرا سا مسکرانا چاہتی ہوں تمہارے ہاتھ سے گر کر اچانک میں اک دن ٹوٹ جانا چاہتی ہوں تجھے میں سامنے سے سوچتی ہوں تجھے میں غائبانہ چاہتی ہوں نہ جاؤ توڑ کے عہد وفا کو میں دلبر مخلصانہ چاہتی ہوں تو میری عمر بھر کی ہے ریاضت تجھے میں اجرتانہ چاہتی ہوں تو ...

    مزید پڑھیے

    بدن کے کھیت کو اب سینچنا ہے

    بدن کے کھیت کو اب سینچنا ہے جو بویا تھا وہ آخر کاٹنا ہے تری آواز کو میں چھو رہی ہوں ترا لہجہ مجھے اب دیکھنا ہے میں اک مزدور کی بیٹی ہوں پگلے مجھے خوابوں کا رستہ روکنا ہے مجھے چھپ کر کہیں رونا ہے پہلے پھر اپنی ماں سے ہنسنا بولنا ہے محبت کے نرالے ذائقے ہیں اسی پتھر کو ہر پل چاٹنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2