بدن کے کھیت کو اب سینچنا ہے

بدن کے کھیت کو اب سینچنا ہے
جو بویا تھا وہ آخر کاٹنا ہے


تری آواز کو میں چھو رہی ہوں
ترا لہجہ مجھے اب دیکھنا ہے


میں اک مزدور کی بیٹی ہوں پگلے
مجھے خوابوں کا رستہ روکنا ہے


مجھے چھپ کر کہیں رونا ہے پہلے
پھر اپنی ماں سے ہنسنا بولنا ہے


محبت کے نرالے ذائقے ہیں
اسی پتھر کو ہر پل چاٹنا ہے


میں وہ چڑیا ہوں جس کو عمر ساری
اسی پنجرے میں اڑنا سیکھنا ہے


میں خود اپنی رکاوٹ ہوں ثمینہؔ
مجھے خود راستہ بھی ڈھونڈھنا ہے