کیسا پیارا شخص تھا اور میں خواب میں رکھ کر بھول گئی
کیسا پیارا شخص تھا اور میں خواب میں رکھ کر بھول گئی
جیسے کاغذ کی کشتی گرداب میں رکھ کر بھول گئی
روشن روشن موتی جیسا صاف سجیلا پانی تھا
جانے کون تھی چاند کو جو تالاب میں رکھ کر بھول گئی
جب بھی اس پہ کھلنا چاہا گال حیا سے لال ہوئے
اس کو پانے کی خواہش آداب میں رکھ کر بھول گئی
سوچ کے دھاگے سے بن کر کچھ سپنے پھینکے کاغذ پر
کیا کرنا اس خواب کا جو اعصاب میں رکھ کر بھول گئی
صبح سویرے ماں نے پکارا بھاگی بھاگی گھر پہنچی
اک جوتا تھا پیر میں دوجا خواب میں رکھ کر بھول گئی
بہہ گیا ہوگا پانی میں اب جھیل میں اس کو ڈھونڈوں گی
اک چہرہ جو اشکوں کے سیلاب میں رکھ کر بھول گئی
اس سے ملنے جانا تھا میں پل کے رستے مل آئی
کچا سوہنی تیرا گھڑا میں چناب میں رکھ کر بھول گئی