بدن یہ جس کے لئے شام جیسا سایا ہے

بدن یہ جس کے لئے شام جیسا سایا ہے
وہ شخص آج بھی میرے لئے پرایا ہے


فضا میں آج پرندوں کی چہچہاہٹ ہے
عجب سا شور درختوں نے بھی مچایا ہے


گذشتہ دور کی لیلیٰ سے مختلف ہوں میں
کہ میں نے عشق کمایا ہے گھر بسایا ہے


ی میرا خاکی بدن لے رہا ہے اکھڑی سانس
سو میں نے بھیجا ہے قاصد اسے بلایا ہے


رہے گا وہ تو مرے خوابوں کی حفاظت میں
چراغ آخری جو نیند میں جلایا ہے