جستجو سے خدا ملا کہ نہیں

جستجو سے خدا ملا کہ نہیں
تجھ پہ در ساتواں کھلا کہ نہیں


کیا کہا پاؤں گھس گئے تیرے
سوچ نے بھی سفر کیا کہ نہیں


تیری خاطر بدن جلا بیٹھے
پھر بھی تیرا دیا جلا کہ نہیں


لوگ لاکھوں پرکھ لئے تم نے
میرے جیسا کوئی ملا کہ نہیں


سب نے پوچھا تو تھا مرا لیکن
ذکر اس نے مرا کیا کہ نہیں


میں جو چوٹی میں گوندھ لائی تھی
پھول کالر پہ وہ کھلا کہ نہیں


تیرے کہنے پہ پہنا سرخ لباس
اب بتا مجھ پہ یہ سجا کہ نہیں


عشق شعلہ ہے یہ جلا دے گا
میرا کہنا یہ سچ ہوا کہ نہیں


مل نہ پائی تجھے ثمینہؔ تو
زندگی پر اثر پڑا کہ نہیں