پیڑ تعبیر کے ہرے ہوتے
پیڑ تعبیر کے ہرے ہوتے
میرے گر خواب نا بکے ہوتے
کاش ہم ایک ہی محلے میں
مل کے اک ساتھ ہی بڑے ہوتے
پھر بھی کچھ آسرا تو ہو جاتا
ساتھ کھوٹوں کے گر کھرے ہوتے
ہم کبھی راستہ بھٹکتے نہیں
دیپ راہوں میں گر جلے ہوتے
دشت سے یوں نہ واسطہ پڑتا
ہم اگر عشق سے پرے ہوتے
دھوپ سے دوستی اگر ہوتی
میرے گھر کے شجر ہرے ہوتے
میں تو آواز دے رہی تھی تمہیں
دو گھڑی کاش تم رکے ہوتے